سینٹ: الیکشن ایکٹ، اسلام آباد لوکل گورنمنٹ بل منظور، دہشت گردوں پر قابو پانا چاہئے ہزار ارب لگ جائیں: اسحاق ڈار

اسلام آباد (خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) سینٹ میں گزشتہ روز الیکشن ایکٹ میں مزید ترمیم اور اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل منظور ہو گئے۔ چیئرمین سینٹ کی زیرصدارت اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے الیکشن ایکٹ میں مزید ترمیم اور اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل ایوان میں پیش کئے۔ اس کے علاوہ واپڈا یونیورسٹی بل 2024ء پر چیئرپرسن قائمہ کمیٹی تعلیم بشری بٹ نے رپورٹ پیش کی جبکہ چیئرمین قائمہ کمیٹی مواصلات پرویز رشید نے نیشنل ہائی ویز سیفٹی  ترمیمی بل پر رپورٹ پیش کر دی۔  اجلاس میں حیدر آباد سکھر موٹر وے کی عدم تکمیل پر رپورٹ پیش کی گئی۔ بلوچستان میں حالیہ دہشتگردی پر بات کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بلوچستان کے معاملے پر سیاست نہ کریں، چاہے آپریشن پر 1 ہزار ارب لگیں ہمیں مل کر اس دہشت گردی پر قابو پانا ہوگا۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ وزیراعظم ایک دو روز میں بلوچستان جارہے ہیں جبکہ وزیر داخلہ محسن نقوی وہاں پہنچ گئے ہیں، ہم آج بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست کو تسلیم کرنے والوں سے مذاکرات ہونے چاہیے مگر ناراضی کے نام پر پہاڑوں پر چڑھنے والوں کے اقدامات کی مذمت اور ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان ہمیں اتنا ہی عزیز ہے جتنے دوسرے صوبے ہیں، ہر پاکستانی کا دل حالیہ دہشت گردی پر رنجیدہ ہے، ہمیں اس معاملے پر سیاست کے بجائے آگے ملکر بڑھنا ہوگا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ شفافیت کے ساتھ ہمیں سوچنا ہے کہ ہمیں ملک میں امن کیسے واپس لانا ہے، سال 2013ء کا ڈیٹا اٹھائیں اور دہشت گردی کے واقعات کا موزانہ کریں، قوم نے 2014 میں اے پی ایس واقعہ کے بعد آپریشن کا فیصلہ کیا، ہم نے کم وقت میں جنگ کی، آپریشن ضرب عضب، ردالفسار سے لڑائی لڑ کر صورت حال کو قابو کیا، نائب وزیراعظم نے کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں تو معاشی قوت کیسے بنیں، اس لیے سیاسی بحران اور معاشی بحران پیدا کیا جاتا ہے، اب بھی دیر نہیں ہوئی، معاشی اور دہشت گردی کے مسائل پر سوچنا چاہے، سینٹ کو ملکر بیٹھنا ہوگا اور سیاست سے بالا ہوکر مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ بلوچستان پر حملہ کرنے والے رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے ہدف سے دائیں بائیں نہیں ہونا چاہئے۔ دہشتگردی اور تخریب کاری کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ معصوم لوگوں کو بسوں سے اتار کر مارنا بربریت ہے۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان واقعہ پر پوری قوم کرب میں مبتلا ہے۔ دہشتگردوں کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی قائم کی جائے جس میں تمام جماعتیں ہوں۔ جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ایوان میں اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان میں جو کچھ ہوا‘ میں سمجھا آگ لگی ہو گی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ وزیر داخلہ بلوچستان گئے‘ کہا یہ ایس ایچ او کی مار ہے۔ چار گھنٹے بلوچستان میں کسی حکومت یا ایجنسی کی رٹ نہیں تھی۔ بطور بلوچی اس واقعہ پر میرا سر ندامت سے جھک گیا۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے کہا ہے کہ سینٹیر اعجاز چودھری کے بھی پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں‘ کچے کے علاقے میں جو کچھ پولیس کے ساتھ ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں۔ کچے کے علاقے میں یہ ڈاکوؤں کا مقابلہ نہیں کرتے۔ جو کچھ بلوچستان میں ہوا ہے وہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال بدتر ہو گئی ہے۔ ایسے حالات میں ملک میں کون سرمایہ کاری کرے گا۔ ہم نے بلوچستان کو سکون سے نہیں دیکھا۔ اتنی دیر قتل عام ہو اور کسی کو معلوم نہیں ہوا۔ موجودہ حکومت کو عوامی سپورٹ حاصل نہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے بنکنگ کمپنیات (ترمیمی) بل 2024ء سمیت دو بل ایوان بالا سے واپس لے لئے، منگل کو ایوان بالا کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے تحریک پیش کی کہ بنکنگ کمپنیات آرڈیننس 1962 ء میں مزید ترمیم کرنے کا بل بنکنگ کمپنیات (ترمیمی) بل 2024 ء یکم جنوری 2024 ء کو سینٹ میں پیش کردہ صورت میں واپس لینے کی اجازت دی جائے۔ ایوان نے تحریک کی منظوری دیدی جس کے بعد وفاقی وزیر خزانہ نے بل واپس لے لیا۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے تحریک پیش کی کہ ڈپوزٹ پروٹیکشن کارپوریشن ایکٹ 2016 ء میں مزید ترمیم کرنے کا بل ڈپوزٹ پروٹیکشن کارپوریشن (ترمیمی) بل2024 ء یکم جنوری2024 ء کو سینٹ میں پیش کردہ صورت میں واپس لینے کی اجازت دی جائے۔ ایوان سے تحریک کی منظوری کے بعد وفاقی وزیر نے بل واپس لے لیا۔ اجلاس میں بلوچستان میں دہشت گردی میں شہید ہو نے والوں کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڈنے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں ہمارے لوگوں کے پروڈکشن آڈرز جاری نہیں ہوتے تھے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت سہولت کار کے لیے کارروائی ہونی چاہیے۔ 102قیدیوں کو رہا کیا ہے کیا وہ سہولت کار ہیں۔ آرمی پبلک سکول سانحہ میں ملوث بھی ان قیدیوں میں تھا، صدر عارف علوی کے ایک دستخط سے رہا کر دئیے گئے، اگر انکو رہا گیا گیا تو قیدی 804  تو بے قصور ہے انہیں رہا کیا جائے، کس قواعد و ضوابط کے تحت 40  ہزار دہشت گردوں کو رہا کیا گیا۔ سینیٹر شاہزیب درانی نے کہا کہ بلوچستان گیارہ اگست 1947ء کو برطانوی راج سے آزاد ہوا اسی دن ہی خان آف قلات نے بلوچستان کو پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا تھا یہ جاننا ہو گا کہ جب ہم سب نے ملکر دہشتگردی پر قابو پا لیا تھا تو پھر کیوں یہ واپس آ گئی، بلوچستان کے نوجوانوں کے اذہان کو کئی برسوں سے زہر آلودہ کیا جاتا رہا ہے، ہمیں بلوچستان کے نوجوانوں کو اولین ترجیح دینا ہو گی، ہمیں دہشت گردی اور انتہاپسندی کی بنیادی وجوہات کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ ملک سے بیروزگاری، مہنگائی، ناخواندگی ختم کرنا ہو گی۔ بلوچستان صورتحال پر ایوان میں بحث کے دوران سینیٹر عبدالشکور خان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعے میں صرف پنجابی ہی نہیں شہید ہوئے واقعے میں پشتونوں اور بلوچوں کو بھی شہید کیا گیا۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی بنیاد نواب اکبر خان بگٹی کا قتل ہے۔ نواب اکبر بگٹی کا کیا قصور تھا، اجلاس کل 10-30 تک ملتوی کر دیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن