ملتان(ظفر اقبال سے) اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی جہاں آزاد ہونے کی خوشی ہے وہاں اپنوں اور خونی رشتوں کے بچھڑ جانے کا غم بھی کم نہیں ان خیالات کا اظہار انڈیا کے علاقے لدھیانہ سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے محمد افضل نے ’ہم نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت میری عمر دس سال تھی۔ جب آزادی کی تحریک عروج پر تھی اس دوران ہر طرف سے ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے‘ کوئی دن ایسا نہیں تھا جب کسی مسلمان کے شہید ہونے کی خبر نہ ملی ہو پھر ایسا ہوا کہ ایک دن بیسیوں جنازے ایک ہی گاؤں سے اٹھتے تھے ایک دن صبح کے وقت ہندو فوجیوں کا ایک گروہ بندوقیں لئے نہتے مسلمانوں پر فائر کرتا ہمارے گاؤں میں داخل ہوا تو ہم سب گاؤں والے سب کچھ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمان دیائے جمنا تیر کر پار کر کے کنارے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہمارا کوئی 100 افراد پر مشتمل خاندان کا قافلہ روانہ ہو گیا اور بارش اس قدر برسی کہ ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ بھوکے پیاسے کئی میلوں کا فاصلہ طے کر کے یو پی پہنچے تو وہاں قیام کیا حالات خراب ہونے پر کرتانہ کے علاقہ سے ہوتے ہوئے باغ پت اور پھر وہاں سے میرٹھ پہنچ گئے جہاں پر لاریاں بھیجی گئیں جن پر سوار ہوئے تو کچی سڑک کے باعث متعدد بسیں زمین میں دھنس کر الٹ گئیں کئی بچے خواتین اور بزرگ موت کے منہ میں چلے گئے اس حادثہ کے باعث واپس آنا پڑا پنجاب میں امن ہونے کے باعث وہاں کیمپ لگا دیا گیا اور 15 دن وہیں کیمپ میں گزارے مگر وہاں پانی نہ ہونے سے بچوں بزرگوں کی بھوک پیاس کا عالم دیکھا نہیں جاتا تھا۔ لگائے گئے کیمپ میں کوئی 10ہزار کے قریب مسلمان تھے یہاں سے 5 میل پیدل سفر کر کے ریل گاڑی پر بیٹھے تو لاہور پہنچ گئے اس دوران میرے خاندان کے 18 افراد شہید ہو گئے۔