کوئی تو ہے جو۔۔؟

ترنول اسلام آباد میں تحریک انصاف کا جلسہ ملتوی ہونا تحریک انصاف کی کمزوری سمجھا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں جلسہ کرنا حکومت اپنے لیے خطرہ تصور کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت پچھلی نگران حکومت اور اس سے قبل پی ڈی ایم کی حکومت نے تحریک انصاف کو تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام آباد میں جلسہ نہیں کرنے دیا۔ پچھلے دو اڑھائی سال سے اسلام آباد اور پنجاب دفعہ 144 کی زد میں ہے۔ یہاں تک کہ عام انتخابات کے دوران بھی کچھ حلقوں کو دفعہ 144 کا سامنا رہا۔ عدالتوں کے احکامات کے باوجود ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر تحریک انصاف کو عوامی طاقت کے مظاہرے سے روک دیا جاتا ہے لیکن موجودہ جلسہ منسوخ کرنا تحریک انصاف کے گلے پڑ گیا ہے۔ کیونکہ اس کی تیاریاں بڑے زور وشور سے کی جا رہی تھیں۔ خاص کر خیبر پختون خواہ جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے، وہاں سے بھرپور قوت کے ساتھ اسلام آباد آنے کی توقع تھی۔ لیکن اچانک صبح سویرے جیل کے پھاٹک کھلتے ہیں، بانی پی ٹی آئی سے تحریک انصاف کے بعض لیڈروں کی ملاقات کا اہتمام کروایا جاتا ہے اور پھر جلسہ منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ باہمی رضا مندی کے ساتھ سارا کچھ کیا گیا ہے۔ بعض ذرائع اسے خوف قرار دے رہے ہیں اور بعض اسے حکمت کاری تصور کر رہے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف جتنی دفعہ اسلام آباد میں جلسے منسوخ کر چکی ہے اب ورکرز میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے اور ورکرز یہ سمجھتے ہیں کہ باہر بیٹھی قیادت کہیں نہ کہیں کمپرومائز ہو رہی ہے۔ یہ تاثر تحریک انصاف کے لیے بہت نقصان دہ ہے اور ورکرز کو بدظن کر سکتا ہے لہذا اب تحریک انصاف کے لیے جلد از جلد اسلام آباد میں جلسہ کرکے اپنے ورکرز کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ کچھ واقفان حال کا کہنا ہے کہ 8ستمبر کے جلسے کے انعقاد کی یقین دہانی پر ہی جلسہ ملتوی کیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے جلسے کے التواء سے ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ تحریک انصاف کی کہیں نہ کہیں انڈر سٹینڈنگ موجود ہے اور یہی بات حکومت کے لیے باعث تشویش ہے۔ تحریک انصاف کا منسوخ ہونے والا جلسہ بہت کچھ واضح کر رہا ہے کہ پاکستان میں صرف حکومت کرنے کے لیے ہی ایک پیج پر ہونا ضروری نہیں اپوزیشن کو بھی سیاست کرنے کے لیے پیج کے کسی کونے کھدرے میں رہنا پڑتا ہے۔ 
حال ہی میں ہونے والے جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کے دھرنے بھی ظاہر کرتے ہیں کہ پیج کافی وسیع ہے جہاں صرف حکومت ہی نہیں چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں مختلف گروپوں سے لے کر طاقتور اپوزیشن تک۔ سب پیج پر کہیں نہ کہیں موجود ہیں بلکہ شخصیات سے لے کر یونینز تک اور تاجر، صنعت کاراور دوسرے مختلف طبقات بھی کسی نہ کسی طور پر پیج کے بغیر نہیں ہلتے۔ پاکستان کے دو بڑے گھاگ سیاستدانوں آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی حالیہ ملاقات بھی واضح کرتی ہے کہ پس پردہ بیک وقت کئی معاملات پنپ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا پی ڈی ایم میں کردار اور الیکشن کے بعد ناقابل قبول مولانا کا انتہا تک قابل قبول ہو کر موثر کردار سے بھی اگر کسی کو سمجھ نہیں آتی تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ کبھی حکومت کو دوتہائی اکثریت مل جانا اور دیکھتے ہی دیکھتے دوتہائی اکثریت سے محروم ہو جانا سب گورکھ دھندا ہے۔ آنے والے دنوں میں صدرمملکت آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کا کردار واضح کرے گا کہ مستقبل کی سیاست کس طرف جا رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی خوش قسمتی ہے کہ اس کی جماعت تاحال ہائی جیک نہیں ہوئی۔ لوگ صرف اس بات پر اعتماد کرتے ہیں جس کے بارے میں انھیں یقین ہو کہ اس کی منظوری جیل سے آئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی براہ راست عوام سے رابطہ نہ ہونے کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں اور نقصان بھی برداشت کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں چین آف کمان کا مسلئہ گہرا ہوتا جا رہا ہے نہ بانی پی ٹی آئی کی بات ورکرز تک پہنچ رہی ہے اور نہ ہی ورکرز کے جذبات بانی پی ٹی آئی تک پہنچائے جا رہے ہیں تاہم اس گیپ کا ایک فائدہ بھی ہے جو معاملہ بیک باونس ہوتا ہے بانی پی ٹی آئی اس سے انکار کر دیتے ہیں اور جس بات کو چاہتے ہیں اس میں ترمیم کر لیتے ہیں کہ یہ بات میں نے ایسے نہیں ایسے کی تھی۔ پیغام پہنچانے والے صیح طرح فالو نہیں کر پائے۔ دوسری جانب حکومت کوشش کے باوجود نہ عوام کو مطمئن کر پارہی ہے، نہ حالات مستحکم ہو رہے ہیں، نہ کاروبار چل رہے ہیں۔ غیر یقینی کا فائدہ ہمیشہ اپوزیشن کو ہوتا ہے۔ حکومت بہت بڑی امیدیں آئی ایم ایف کے نئے قرض پیکج سے لگائے بیٹھی ہے کہ نئے ڈالروں سے حکومت بحرانوں پر قابو پا لے گی۔ وطن عزیز  عجب کیفیت سے گزر رہا ہے۔ نہ حکومت کو سکون مل رہا ہے نہ اپوزیشن کی دال گل رہی ہے۔ حکمرانوں کی بھی نیندیں اڑی ہوئی ہیں اور اپوزیشن بھی تلملا رہی ہے جبکہ عوام سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔ کس وقت کیا ہو جائے کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ حکومت کے پلے بھی کچھ نہیں اور اپوزیشن بھی نکرے لگی ہوئی ہے ایسے میں کوئی تو ہے جو یہ ملک چلا رہا ہے۔
 آخر میں بلوچستان میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ دشمن ہمارے اندرونی حالات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی بیرونی نیٹ ورک کی مدد کے بغیر اتنی بڑی بڑی کارروائیاں ڈالی جا سکیں سب سے زیادہ بوجھ قومی سلامتی کے اداروں پر ہے جو بیک وقت چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ لیکن ان لڑائیوں میں کامیابی قوم کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ دہشتگردی نت نئے طریقوں سے سر اٹھا رہی ہے جس پر قابو پانے کے لیے پوری قوم کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...