تشویشناک برین ڈرین

پاکستان سے برین ڈرین تشویش ناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ اس سلسلے میں مکمل طور پر بے حس نظر آرہی ہے۔ ان وجوہات اور اسباب پر سوچ بچار کرنے پر بھی امادہ نہیں ہے جو برین ڈرین کا سبب بنتے جا رہے ہیں۔ اگر پاکستان کی حکمران اشرافیہ نیک نیت اور محب وطن ہو تو برین ڈرین کی رفتار کو روکا بھی جا سکتا ہے۔ ملائشیا کے عظیم لیڈر مہاتیر محمد جب دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دنیا بھر سے ملائشیا کے شہریوں کو اپنے وطن واپس بلائیں گے تاکہ وہ اپنے ملک ملائشیا کی ترقی وہ خوشحالی میں کردار ادا کر سکیں۔  مہاتیر محمد نے  بیرونی ممالک سے واپس آنے والے افراد کو انہی تنخواہوں اور مراعات کی پیشکش کی جو وہ بیرونی ملکوں سے لے رہے تھے۔ ملائشیا کے لوگوں نے بڑی خوشدلی کے ساتھ ملائشیا کی حکومت کی پیشکش کو قبول کر لیا۔ جب بیرونی ملکوں میں کام کرنے والے ماہرین ملائشیا واپس آگئے تو ملائشیا ایشیا کا معاشی ٹائیگر بن گیا۔ پلس کنسلٹنٹ کے ایک سروے کے مطابق بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2008ء  سے 2024ء تک 10 ملین یعنی ایک کروڑ افراد پاکستان سے باہر چلے گئے جن میں ہنرمند اور غیرہنر مند دونوں شامل ہیں۔ ان افراد نے 2024ء کے مالی سال کے دوران صرف 30 ملین ڈالر پاکستان واپس بھیجے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 64 فیصد آبادی 30 سال کی عمر کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں نوجوان  آبادی بہت زیادہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نوجوان پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہونا چاہیئں تھے مگر وہ پاکستان کی پسماندگی معاشی بدحالی بیڈگورننس مہنگائی کی وجہ سے پاکستان چھوڑ کر باہر جا رہے ہیں۔ 2008ء سے 2013ء تک پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 20 لاکھ 40 ہزار افراد پاکستان چھوڑ کر بیرونی ممالک میں چلے گئے۔ 2013ء سے 2018ء￿  تک مسلم لیگ نون کی حکومت کے دوران 30 لاکھ 50 ہزار افراد پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔ 2018ء سے 2022ء تک تحریک انصاف کی حکومت کے دوران 10 لاکھ 75 ہزار افراد پاکستان چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے۔ 2022ء سے 2024ء تک پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران تقریبا 16 لاکھ افراد پاکستان چھوڑ گئے۔ 2022ء میں 832339 اور 2023ء￿  میں 862425 پاکستانی مشرق وسطی اور یورپین ملکوں میں ہجرت کر گئے۔
ایک معتبر اور مستند رپورٹ کے مطابق پاکستان کو چھوڑ کر جانے والے افراد میں 5534 انجینئرز 18000 الیکٹریکل انجینئر 2500 ڈاکٹر 12000 کمپیوٹر ماہرین 6500 اکاؤنٹنٹ 2600 زرعی ماہرین 1600 نرسز 21517 ٹیکنیشن شامل تھے۔ پاکستان اور عوام دوست دانشوروں کے مطابق اگر بیرونی دنیا کے ممالک پاکستانیوں کو فری ویزا دینا شروع کر دیں تو پاکستان سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد 1947ء سے بڑھ سکتی ہے۔ خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والی آسیہ ان لاکھوں لوگوں میں شامل ہیں جو حال ہی میں پاکستان چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں- انہوں نے بتایا کہ غربت،  مہنگائی، بے روزگاری کی وجہ سے وہ پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہیں کیونکہ ان کو پاکستان کے اندر اپنا مستقبل روشن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ آسیہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں اسی وجہ سے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ وقت پر کسی دوسرے ملک جا کر اپنا کیریئر بنا لیں۔ آسیہ نے بتایا کہ ملک چھوڑنا کسی کے لیے بھی آسان کام نہیں ہوتا اور اسے بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ رہائش کا بندوبست کرنا پڑتا ہے، اخراجات ادا کرنے پڑتے ہیں اور نئے کلچر میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ روزگار ڈھونڈنا بھی  انتہائی مشکل کام ہوتا ہے مگر اس کے باوجود پاکستان کے ہنر مند لوگ پاکستان چھوڑ کر دنیا کے مختلف ملکوں میں جا کر آباد ہو رہے ہیں۔ آسیہ کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرتی تو برین ڈرین اس قدر تشویش ناک صورتحال اختیار نہ کرتا۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان اس حد تک مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ قانونی ذرائع اختیار کرنے کے بجائے غیر قانونی ذرائع بھی  اختیار کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور اپنی زندگی اور آزادی کو بھی خطرے میں ڈال لیتے ہیں- فیس بک پر دوستوں نے برین ڈرین کے بارے میں اپنی آراء دی ہیں-سید مزمل بخاری کہتے ہیں نوجوانوں کا تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جانے کی ایک بڑی وجہ ملک میں دستیاب مواقعوں کی کمی اور معاشی عدم استحکام ہے۔ پاکستان میں روزگار کے مواقع کم ہیں اور جو مواقع ہیں وہ اکثر میرٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہتر زندگی کے معیار ترقی کے زیادہ مواقع اور محفوظ مستقبل کی تلاش  بھی نوجوانوں کو بیرون ملک جانے کی طرف راغب کرتی ہے۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو ملکی نظام پر اعتماد ہی نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں انہیں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنے اور ترقی کرنے کے مواقع بہت کم ملیں گے۔ حامد فاروق کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ تباہ کن صورتحال ہے کہ اصلی ڈگری والا اوبر چلا  رہا ہے جبکہ جعلی ڈگری والے ملک چلا رہے ہیں۔ مزید ستم یہ کہ ینگ ڈاکٹر جتنی تنخواہ لیتا ہے اتنی تو  سپریم کورٹ کا کلرک لیتا ہے۔ کرنل زیڈ فرخ کہتے ہیں کہ ایک وزیر با تدبیر کو میڈیا پر یہ کہتے سنا کہ اچھا ہے لوگ باہر جا کر زرمبادلہ بھیج رہے ہیں۔ قوم سازی کے ضمن میں ان کی یہ دلیل جاننے کے بعد میرا تو دماغ ہی شل ہو گیا ہے۔ عصمت جمال کہتے ہیں کہ پاکستان سے باہر جانے والے ماہرین عارضی طور پر باہر گئے ہیں اور وہ جب پاکستان کے حالات سازگار ہو گئے واپس آ جائیں گے اور پاکستان کی تعمیر و تشکیل میں کردار ادا کریں گے۔ ذوالفقار علی چوہان کہتے ہیں کہ پاکستان پر مافیاز کا قبضہ ہو چکا ہے اور پاکستان میں ٹیلنٹ دیانت داری اور اعلی تعلیم کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اسی وجہ سے لوگ پاکستان کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا رہے ہیں۔ اگر نوجوانوں کو مساوی مواقع میسر آئیں تو وہ کبھی ملک چھوڑ کر نہ جائیں۔ ذوالفقار بانیان کہتے ہیں کہ پاکستان میں کسی کی جان و مال اور عزت آبرو محفوظ نہیں ہے عدل و انصاف کا کوئی نظام موجود نہیں ہے کرپشن عام ہے احتساب کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا نوجوان مایوس ہو کر پاکستان کو چھوڑتا جا رہا ہے۔ مدثر احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں روپے کی قدر و قیمت بہت کم ہے اور ڈالر کی اڑان بہت اونچی ہے۔ جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔ بجلی بہت مہنگی ہو چکی ہے اس لیے نوجوان طبقہ پاکستان سے باہر جا رہا ہے۔ 
حکمران اشرافیہ عیش و عشرت میں مصروف ہے وہ اپنا وی آئی پی کلچر بھی ترک کرنے پر تیار نہیں ہے نہ ہی کفایت شعاری اور سادگی کی پالیسی پر عمل درامد کرنے پر آمادہ ہے۔ ان کو کوئی غرض نہیں کہ پاکستان سے نہ صرف برین بلکہ سرمایہ بھی دوسرے ملکوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ چند ماہ پہلے دبئی لیکس میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کے سلسلے میں جو انکشافات ہوئے تھے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا سرمایہ کس تیزی کے ساتھ پاکستان سے باہر جا رہا ہے- لوگ پاکستان میں کاروبار بند کر رہے ہیں صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ تجارتی ادارے بند ہو رہے ہیں مگر کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے لوگوں میں مایوسی پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے وہ پاکستان کے اچھے کاموں کی تشہیر کرنے کی بجائے منفی کاموں کی تشہیر کر رہے ہیں جس سے نوجوانوں میں مایوسی پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ حکومت کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے کہ پاکستان کا نوجوان روز بروز مایوسی اور بے حسی میں کیوں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن