پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے گلاب جیسے پھولوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ حکومت ، فوج اور تمام سیاسی پارٹیاں مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں اور اس کے لئے ایک نیشنل ایکشن پروگرام بنایا جائے ۔ اللہ نے عمران خان کو بھی مت دی اور وہ مہینوں کا دھرنا چھوڑ کر پشاور کے گورنر ہائوس میں پہنچ گیا ، جہاں میاں نواز شریف ، جنرل راحیل شریف ، تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ اور سیاسی جماعتوں کی قیادت سر جوڑے بیٹھی تھی ۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بس بھئی بس ! دہشت گردی حد سے بڑھ گئی ہے ۔آئندہ بدامنی پھیلانے والوں کا سر کچل دیا جائے گا ۔ اس اجلاس میں قومی اتفاقِ رائے سے ایک نیشنل ایکشن پلان وضع کیا گیا جن پر ہر ایک نے دستخط کئے ۔
اس متفقہ پلان کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ تمام صوبے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے ۔ فوج تو پہلے ہی سے ضربِ عضب کی مہم شروع کرچکی تھی ۔ یہ بہت کڑی آزمائش تھی ، کیونکہ دہشت گردوںنے پہاڑوں کی چوٹیوں، سرنگوں اور غاروں میں اپنے مورچے اور کمین گاہیں بنارکھی تھیں۔ شجاعت اور دلیری میں پاک فوج کا کوئی ثانی نہیں ، اس لئے وہ اس کٹھن مہم کو کامیاب بنانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے پر تیار ہوگئی۔ ایک طویل جدوجہد اور ان گنت قربانیوں کے بعد دہشت گردی کے ناسور کو کچل دیا گیا ۔ فاٹا کا سارا علاقہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں ضم کردیا گیا اور سول انتظامیہ کی ڈیوٹی لگادی گئی کہ وہ پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کے ذریعے دہشت گردی کے فتنے کو دوبارہ سر نہ اٹھانے دیں۔
معاملہ تب خراب ہوا ، جب عمران خان کی پی ٹی آئی کو پشاور میں اقتدار ملا ۔ عمر ا ن خان خود کو طالبان خان کہنے سے نہیں جھجکتے ۔ انہیں وفاق کی حکومت بھی مل گئی ، تو انہوں نے امن ِ عامہ کی دھجیاں بکھیر دیں۔ جیلوں میں قید خطرناک قیدیوں کو رہا کردیا گیا اور سرحد پار افغانستان میں موجود قبائلیوں کو پیشکش کی گئی کہ وہ بھی واپس اپنے گھروں میں آجائیں ۔ قیامِ امن کے لئے دہشت گردوں کے ساتھ نام نہاد مذاکرات کا سلسلہ بھی چل نکلا ۔ اس طرح پاک فوج اور ملک کے عوام نے بیس سال تک دہشت گردی کو کچلنے کے لئے جو قربانیاں دی تھیں، ان سب پر پانی پھر گیا۔ سرحد پار افغانستان سے آنے والے دہشت گرد پورے ملک میں پھیل گئے ۔ انہیں نئے سہولت کار میسر آگئے ۔ جنہوں نے دہشت گردوں کو دکانیں اور مکان کرائے پر دئیے اور انہیں مکمل یقین دلایا کہ کوئی ان کی طرف بری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ۔
یوں بلوچستان ، سندھ ، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ اس خطرے کے پیش نظر حکومت اور سیکورٹی اداروں نے فیصلہ کیاکہ ہر صوبے میں ایکشن پلان کی شاخیں کھولی جائیں ۔ مرکزی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں طے پایا کہ دہشت گردی کے انسداد کے لئے بھرپور آپریشن شروع کیا جائے ۔ فوج تو اس آپریشن کو کامیاب کرنے کے لئے شروع دن سے ہی کوشش کررہی ہے ، فوجی جوان اور افسروں کی آئے روز شہادتیں بھی ہوتی ہیں ، مگر عمران خان کے دور میں جو دہشت گرد ملک میں آچکے تھے ، انہیں ٹھکانے لگانا اکیلے فوج کے بس کی بات نہیں ۔ استحکام پاکستان آپریشن کی سست روی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ کوئی صوبہ اس ضمن میں سرگرم کردار ادا نہیں کررہا ۔ بلکہ خیبر پختون خوا کا صوبہ یا حکومت تو سرے سے ہی اس آپریشن کے خلاف ہے ۔
پچھلے سال 9مئی کو پی ٹی آئی کے قائدین اور کارکنوں نے ایسا غدر مچایا کہ خدا کی پناہ ۔ انہوں نے 200فوجی حساس تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ معمولی سی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر دہشت گردی کرنا سیاسی کارکنوں کے بس کی بات نہیں ۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہر جگہ بلوائیوں کی قیادت سرحد پار اور قبائلی علاقوں سے آنے والے افراد تھے ۔لاہور کے جناح ہائوس میں جہاں کور کمانڈر کی رہائش تھی، اسے خاکستر کرنے کے لئے جو لوگ سب سے پہلے داخل ہوئے ، وہ آپس میں پشتو زبان میں باتیں کررہے تھے ۔
9مئی 2023ء کے ملبے کے پیچھے چھپے دہشت گردوں کو تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ عمران خان سے لے کر نچلی سطح کے کسی بھی کارکن کے خلاف کہیں کوئی ٹھوس مقدمہ نہیں چل سکا۔ نہ ایک سال گذرنے کے بعد کسی ذمہ دار ملزم کو سزا دی جاسکی ہے ۔ یہ صورتحال ملک اور اسکے عوام کے لئے انتہائی خطرے کا باعث بن رہی ہے ۔ تاہم پاک فوج اپنا فرض پہچانتی ہے ۔ بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل عاصم منیر کم از کم تین مرتبہ انتباہ کرچکے ہیں کہ شر انگیز عناصر پاکستان سے فوری نکل جائیں ، اگر انہوں نے کہیں اشتعال پھیلانے کی کوشش کی تو آرمی چیف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ میں اس اشتعال کے مد مقابل کھڑا ہوں ۔ پاکستان کی بہادر افواج کے ساتھ ٹکرانے کی کسی کو جرات نہیں ہوسکتی ۔ لیکن اگر کوئی سرپھرا باہر نکلا تو اسے اپنا انجام معلوم ہونا چاہئے ۔ بے شک افواج ِ پاکستان کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ، وہ اپنی جانوں پر کھیل کر بیرونی اور اندرونی خطرات سے ملک کا دفاع کرنا جانتے ہیں ۔پاکستانی افواج کی شب و روز قربانیوں کی وجہ سے ہی پاکستان کے لوگ راتوں کو چین کی نیند سوتے ہیں ، دن کو بازاروں میں چہل پہل ہوتی ہے ، سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں، دکانیں کھلی ہوئی ہیں، سڑکوں پر ٹریفک کا رش ہے ، موٹر ویز پر کاروں کی لمبی قطاریں دکھائی دیتی ہیں ۔
غرض اس پس منظر میں یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں عام آدمی کے جان و مال کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ، ملک میں کسی مافیا کا راج نہیں ، بس مٹھی بھر دہشت گرد ہیں ، جن کا جلد یا بدیر قلع قمع ہوجائے گا ۔ پاکستان کے لوگ چین کی بانسری بجائیں گے ۔ درحقیت نیشنل ایکشن پلان ہی ملک میں پائیدار قیامِ امن کا ضامن ہے ۔
٭٭٭