حدیثِ مبارکہ ہے ’’اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ اچھے کا م کی تلقین کرو اور بْرے کام سے روکو تو ایک صحت مند اور اچھا معاشرہ خود بخود تشکیل پا جاتا ہے لیکن ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ ہمارے اس سماج میں اس حدیث مبارکہ کا چرچا کرتا تو ہر وقت، ہر بندہ ملے گا لیکن جب عملی طور پر اسکے نفاذ کی بات آئے گی تو پھر ہماری تمام تر توقعات اور اْمیدیں صرف اور صرف دوسروں کی ذات سے جْڑی ملیں گی۔ اپنے معاشرہ کے کسی فرد یا شعبہ کی طرف دیکھ لیں ایک طرف قدم قدم پر آپکو مجھ جیسے بیسیوں خود ساختہ پارسائی کے دعویدار ناصح کے روپ میں نیکی کا درس دیتے ملیں گے جسکے ساتھ وہ کوئی ایسا لمحہ بھی جانے نہیں دینگے جب وہ دوسرے لوگوں اور حکومتی شعبہ جات میں کیڑے نکالتے نہ ملیں کہ اس نے یہ کام ٹھیک نہیں کیا اس نے وہ کام ٹھیک نہیں کیا۔ قصہ مختصر اس سماجی بگاڑ جسکا آجکل ہر طرف دور دورہ ہے وہ دوسروں کو ہی اسکا ذمیدار سمجھتے اور ٹھہراتے جبکہ خود کو اس سے بری الذمہ قرار دیتے ملیں گے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جب کبھی کوئی سوشل ایکٹیوسٹ ایسے لوگوں سے اس حدیث مبارکہ کی روح سے انکی ذات کے حوالے سے کوئی سوال کرنے کی جسارت کرے تو ٹیرھا سا منہ بنائے یہ خود ساختہ درویش صفت لوگ انگریزی میں کہتے ہیں ‘‘ مائنڈ یور اون بزنس’’ یعنی کہ اپنے کام سے غرض رکھو۔
زندہ اور صحت مند معاشروں نے جہاں اس حدیث مبارکہ کا اپنی زندگیوں میں اپنے اوپر عملی طور پر اسکا نفاذ کیا ہوا ہے وہیں پر اْنھوں نے ایک اور روایت بھی اپنائی ہوئی ہے کہ نیکی کی تلقین کے ساتھ اچھے کام کرنے والے کو وہ نہ صرف appreciate کرتے ہیں بلکہ سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ گہرائی سے دیکھیں تو یہ appreciation کا جذبہ نیکی کرنے والا کا حوصلہ تو بڑھاتا ہی ہے لیکن اسکے ساتھ ایک اور چیز بھی ہوتی ہے کہ وہ نیکی کرنے والے کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی اس سلسلے میں motivate کرتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے سماج کا یہ فیشن بن گیا ہے کہ ہم ہر وقت معاشرتی بگاڑ کے متعلق باتیں تو کرتے رہتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسکے ساتھ ہم اْن وجوہات یا اسباب کا ذکر نہیں کرتے جو اس بگاڑ کا موجب بنے یا ابتک بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ غلامی کے دور سے ہمارے ملک میں انگریز دور کا جو نظام چلا آ رہا ہے آزادی کے بعد بھی زمانے کی رفتار سے اس میں ہم نے کوئی ریفارمز نہیں کی جسکی وجہ سے بیشتر شعبہ ہائے زندگی میں جاری نظام اسقدر بوسیدہ ہو چکا ہے، لگتا ہے کہ خدانخواستہ ملک کی عمارت کس وقت زمین بوس ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس خاکسار کے نزدیک صحافت یہ نہیں کہ آپ ہر وقت اس کھوج میں رہیں کہ کس جگہ کیا برائی، خامی یا کمی ہے جسے exploit کر کے ریٹینگ بڑھائی جا سکتی ہے بلکہ صحافت کا اصل جذبہ ہی یہ ہے کہ کوشش کریں کسی جگہ کوئی مثبت کوئی مثبت پہلو نظر آئے تو اسکا ذکر کرنے اور اسے اْجاگر کرنے میں کبھی بْخل سے کام نہ لیں۔ یہ غالباً 2022ء کی بات ہے کرونا کی وبا کے زور ٹوٹنے کے بعد میرا الائیڈ بینک ڈیفنس برانچ جانا ہوا وہاں پر اس خاکسار نے جو سٹرکچرل تبدیلیاں اور عملے کے رویوں میں بہتریاں دیکھیں اس پر ایک کالم لکھا جسکا مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اس برانچ کے ہیڈ آفس نے نہ صرف پوری برانچ کو تعریفی اسناد سے نوازا بلکہ ایک دو اسٹاف ممبر کو ترقی بھی دی۔پچھلے ہفتے اس خاکسار کا اسلام آباد سیکٹر جی ٹین فور میں نادرا کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ عین اس وقت جب میں دفتر میں داخل ہو رہا تھا ساون بھادوں کی جھڑی نے اسلام آباد میں فضائیں معطر کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اسطرح کے رنگ بکھیرے ہوئے تھے کہ بڑے سے بڑا رومانوی شاعر بھی شائد اس ‘‘رنگینی ‘‘ کو الفاظ کا وہ جامہ اور دنیا کا نامور مصور رنگوں کا وہ لباس پہنا سکے جو اس دلکشی کے شایان شان ہو ، ایسے میں اسی ادارے کے ایک سابق چیرمین علی ارشد حکیم کے ساتھ آج سے ٹھیک بارہ تیرہ سال پہلے اسکے دفتر میں گزری کئی ملاقاتیں ایک دفعہ پھر سے یاد آنے لگیں۔ میاں اسلم بشیر کے بعد علی ارشد حکیم میرا ایسا یار ہے جو بہت ہائی پروفائل عہدوں پر پہنچنے کے باوجود سرعام اس خاکسار کے ساتھ اپنی دوستی کو ایک اعزاز کے طور پر پیش کرتا رہا ہے اور اسکا عملی ثبوت 26 جنوری 2013 کو بطور چیئرمین ایف بی آر واہگہ بارڈر کی ایک تقریب میں بھی دے چکا۔ آج نادرا کے دفتر میں مجھے اسکی کمی محسوس نہیں ہوئی لیکن اسکی یاد ضرور آئی اور اسکی یادوں نے میرا سر اس وقت فخر سے بلند کر دیا جب پانچ منٹ سے کم وقفے میں وہاں کے عملے نے ضروری کاروائی کے بعد یہ کہا کہ اب آپ گھر جا سکتے ہیں اور دو دن بعد آپکو اپنا کارڈ ضروری تبدیلیوں کے ساتھ مل جائے گا۔ خاکسار نے عملہ سے سوال کیا کہ ‘‘اسقدر حیران کن تبدیلی’’ تو کاونٹر پر موجود اہلکار نے کہا credit goes to Ali Arshad Hameed, ex Chairman جس نے نہ صرف پورے نظام میں اصلاحات کیں بلکہ پروٹوکول سسٹم بھی ختم کیا۔ اسکے بعد جس دفتر سے واسطہ پڑا وہ اسی سیکٹر میں واقع پاسپورٹ کا دفتر تھا۔ دفتر پہنچتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ مختلف کاونٹرز پر متعین عملہ بڑے انہماک سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے اسی اثناء جب میں اور بیگم جیسے ہی ٹوکن والے کاونٹر کی طرف بڑھتے ہیں تو ایک اہلکار نے ہمیں پیچھے سے آ کر اپنی طرف متوجہ کیا اور بیچ ہال میں کھڑے ایک سوٹڈ بوٹڈ بندے کی طرف اشارہ کیا کہ صاحب آپکو بلا رہے ہیں۔ صاحب جو صرف نام کے ہی صاحب نہیں بلکہ پرسنیلٹی سے بھی صاحب لگ رہے تھے انھوں نے اپنا تعارف کچھ یوں کروایا’’ میرا نام ‘‘ مصطفی جمال قاضی ‘‘ ہے اور میں ‘‘ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ‘‘ کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔ باقی اگلے کالم میں انشاء اللہ
٭…٭…٭
یہی دیپ جلیں گے تو روشنی ہو گی
Aug 28, 2024