بدھ‘ 22 صفر المظفر1446ھ ‘ 28 اگست 2024ء

بے گناہ پنجابیوں کے خون ناحق کا نوحہ کون لکھے گا۔
امرتا پریتم نے تقسیم کے وقت پنجاب میں کھیلی خون کی ہولی پروارث شاہ کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا "اج اکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وِچّوں بول"۔ان کا یہ نوحہ آج بھی تازہ لگ رہاہے۔پہلے تو دشمن تھے آج اپنے بھائی وہی کام کر رہے ہیں۔
 بس بہت ہو چکا کئی بار دوسرے صوبوں میں محنت مزدوری کرنے والے غریب پنجابیوں کو بے گناہ قتل کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ پنجاب کے باسی ہیں۔ وہ پنجاب جس کے دامن میں لاکھوں پاکستانی جن کا تعلق دوسرے صوبوں سے ہے روزی کمانے کیلئے آباد ہیں۔ آج تک کبھی ایسا نہ ہوا، نہ خدا کرے ایسا ہو کہ پنجاب میں کسی بے گناہ شہری کو ،شناختی کارڈ دیکھ کر اس بنیاد پر قتل کیا جائے کہ وہ پنجابی نہیں۔ اس کے باوجود دشمنوں کے رنگ میں رنگی جانے والی ماہرنگ جیسی خواتین اور قدیر جیسے ماما بنے لاپتہ افراد کا نام لے کر دہشت گردوں کو مظلوم ثابت کرنے کیلئے سڑکوں پر مارچ کرتے دھرنے دیتے نظر آتے ہیں۔ آج پہلی بار نہیں کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ پنجاب کے رہنے والوں کو اجتماعی طور پر بسوں سے اتار کر یا ان کے گھروں میں گھس کر شناختی کارڈ دیکھ کر فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا ہے۔ یہ وہی لوگ کر رہے ہیں جو لاپتہ افراد کے نام کی آڑ لے کر دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اگر اس پر پنجاب والے خاموش ہیں تو انہیں بزدل قرار دیا جا رہا ہے۔ اب پنجاب میں بھی کوئی ’’لہو رنگ‘‘ بیٹی آگے بڑھ کر بے گناہوں کے لہو سے تر سرخ کفن کو پرچم بنا کر باہر نکلے اور " اج ویکھ اپنا پنجاب"کانوحہ پڑھے تو کیا قیامت ہو گی۔ شکر ہے ایسا جذباتی ماحول پیدا ہونے نہیں دیا جاتا۔ بڑے بھائی کو روک دیا جاتا ہے کہ کوئی جوابی ایکشن نہ لے کیونکہ پاکستانیت کی پگ اس کے سر پر دھری ہوئی ہے۔ ورنہ ڈیرہ اسماعیل خان سے جو راستے تجارت اور لوگوں کی آمدورفت کے لیئے استعمال ہوتے ہیں پنجاب سے ہی گزرتے ہیں۔ اگر یہ بھی غیر محفوظ ہو گئے تو کیا ہو گا۔ جاگ پنجابی جاگ والے نعرے کی گونج آج پھر سنائی دے رہی ہے۔ نوجوان اس قتل عام پر بہت جذباتی ہیں۔ ہے تو دکھ کی بات کہ پنجاب کے کالجوں ، یونیورسٹیوں میں ہزاروں بلوچ، پشتون بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے اور ان کا یہاں روزگار بھی ہے۔ اس کے صلے میں محبت کی بجائے ان کو جواب میں لاشیں بھیجی جا رہی ہیں۔ ’’ظلم رہے اور امن بھی ہو‘‘ کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ اس سے صرف نفرت اور انتقام کی سیاست ہی جنم لیتی ہے۔ جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔ ببول کے درخت پر کبھی گلاب نہیں لگتے۔ اب گمشدہ کے نام پر دہشت گردوں کو بچانے کی کوششیں کرنے والوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرنا ہو گا۔ 
٭٭٭٭٭
لاہور میں جیون ساتھی کے انتخاب کے لیے نجی ایپ کے زیر اہتمام تقریب۔ 
اب کیا یہی رہ گیا تھا اس وطن عزیز میں جو اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ خوش قسمتی سے یہاں 90 فیصد سے زیادہ مسلمان آباد ہیں اور 100 فیصد سے زیادہ غیر اسلامی کام یہاں کھلم کھلا ہوتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں لاہور جیسے شہر میں ایک شادیاں کرانے والی خواتین کی تنظیم کی ویپ نے ایک ایسا کام کیا جو بقول شاعر 
کودا تیرے آنگن میں کوئی دھم سے نہ ہو گا 
جو کام ہوا ہم سے وہ رستم سے نہ ہو گا
لگتا ہے خواتین کے حقوق اور آزادی کے نام پر کام کرنے والی تنظیمیں اب شادی بیاہ کے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لینے لگی ہیں۔ جو کام پہلے خاندان کی بڑی بوڑھیاں کرتی تھیں پھر وچولن اور ماسیوں کے ہاتھ میں آ گیا۔ اب شاید جدید دور کا تقاضہ ہے کہ یہ کام ہماری ماڈرن آنٹیاں اور انکل کرنے لگے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ رشتہ طے کرنے والی اس ایپ نے جس طرح 20 سے 35 سال کے لڑکوں اور لڑکیوں کو ’’اسلامی ڈیٹینگ ‘‘ کے نام پر اس ایپ کے زیر اہتمام تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کیا کہ وہ ایک دوسرے سے براہ راست مل کر جو مناسب رشتہ لگے اس سے بات آگے بڑھائیں۔ بے شک یہ کام والدین کی ذمہ داری سے، رضامندی سے ہو گا مگر اس کے طریقہ کار سے لوگوں کی بڑی تعداد اختلاف کرے گی۔ اسلام میں شادی سے قبل لڑکا لڑکی مناسب ماحول میں حدود و قیود کی پابندی کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے بات کر سکتے ہیں مگر اس طرح اپنی مرضی سے کسی ایپ کی دعوت پر جا کر ملاقات کرنا بہرحال قابل تعریف نہیں ہو گا۔ پہلے ہی کچھ لوگ مادرپدر آزادی کا ماحول چاہتے ہیں۔ ایسا یورپ میں ہی ہوتا ہے۔ جہاں شادی مالی بوجھ یاصرف قانونی پابندی کا نام ہے۔ ہمارے ہاں یہ ایک مقدس بندھن ہے۔ امید ہے ہمارے ماڈرن لبرل ادارے اور تنظیمیں کم از کم اس حوالے سے ہاتھ ہولا ہی رکھیں گی۔ پہلے ہی والدین اور اولاد میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں اب ان کے یہ ’’ارینج میرج‘‘ کے حق پر ڈاکا ڈال کر خاندانی رشتوں کو کمزور نہ کیا جائے۔ پہلے ہی معاشرہ پسند کی شادی یا گھر والوں کی پسند کی شادی کے باوجود طلاق اور خلع کے بڑھتے رحجان سے پریشان ہے۔ اس لیے پہلے ہی لوگوں کی زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنائیں۔ فی الحال تو اس ڈیٹنگ ایونٹ پر ہونے والے ردعمل کا جواب سوچیں۔
٭٭٭٭٭
اڈیالہ سمیت پنجاب کی متعدد جیلوں کا عملہ تبدیل۔
جب جیلوں میں سیاسی رہنما قدم رنجہ فرماتے ہیں ، ان کے حامی اور چاہنے والے جو جیل کے عملے میں موجود ہوتے ہیں تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ وہ اپنے سیاسی قائدین کو خوش کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے سیاسی قیدیوں کی جیل میں بھی ٹور بنی رہتی ہے۔ حقہ پانی سے لے کر کھانے پینے تک کا دور چلتا رہتا ہے۔ اسی طرح ملاقاتیوں سے بھی خلاف ضابطہ بہت نرمی برتی جاتی ہے۔ آج کل یہ سیاسی وابستگی کا اثر زیادہ ہی نظر آتا ہے۔ یوں لگتا ہے سیاسی قیدیوں کو اب ملاقات کے علاوہ میڈیا تک پیغام پہنچانے اور اپنے کارکنوں تک ہدایات پہنچانے کی تمام تر سہولت حاصل ہو رہی ہے۔ فون یا موبائل ہی نہیں زبانی کلامی یا لکھ کر پیغام رسانی کی سہولت بھی انہیں دی جا رہی ہے۔ بلکہ جیل کا عملہ خود بھی سہولت کاری کے فرائض انجام دیتا ہے وہ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ۔ یہ باتیں جب ثبوتوں کے ساتھ سامنے آئیں تو حکومت نے جیلوں کے عملے کو یہ یاد دلایا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے نہیں حکومت پاکستان کے ملازم ہیں…اس لیے وہ اپنی پارٹی کی بجائے قانون پاکستان کو اہمیت دیں اس سے وفاداری نبھائیں۔ پہلے ہی جیلوں میں پیسے دے کر کیا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ رشوت خور عملہ ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سیاسی و غیر سیاسی قیدی جیلوں میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اسی میں ان کی عافیت بھی ہوتی ہے اور نام الگ بنتا ہے۔ لوگوں کی ہمدردیاں وہ اس طرح سمیٹتے ہیں۔ اب اڈیالہ جیل کے حوالے سے جو کچھ سامنے آیا اس کے بعد تو یہ اتھل پتھل ہونا ہی تھی۔ شکر کریں کسی کو بلی کا بکرا نہیں بنایا گیا۔ صرف اِدھر اْدھر کر کے ہی معاملہ ٹھنڈا کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ معاملہ سخت اقدامات کا متقاضی ہے۔ 


٭٭٭٭٭
قاہرہ میں حماس، اسرائیل امن مذاکرات ناکام۔
بالکل واضح بات ہے کہ جو مذاکرات بنا کسی نتیجے کے ختم ہوں تو انہیں لگی لپٹی بغیر ناکام ہی کہا جا سکتا ہے۔ باقی اپنا دل خوش کرنے کے لیے جس کا جو جی چاہے کہہ لے۔ یہی حال فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کے لیے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے اجلاسوں کا ہے۔ بڑی طاقتیں زبانی کلامی جو چاہیں کہیں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جب تک اسرائیل کے ابو امریکہ نہیں چاہیں گے یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہونگے خواہ قاہرہ میں ہوں یا دوحہ میں۔ کویت میں ہوں یا دبئی میں۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان امن تب ہی ہو گا جب امریکہ اپنی ناجائز اولاد کو مجبور کرے گا۔ اگر اس طرح ہلہ شیری ملتی رہی تو پھر کچھ نہیں ہونے والا۔ اب تو اسرائیل نے فلسطین کے علاوہ لبنان کو بھی نشانے پر لیا ہوا ہے۔ حزب اللہ والے جتنی چاہے چاند ماری کر لیں راکٹ فائر کریں یا ڈرون حملے کریں امریکہ کے دیئے ہوئے فضائی حملوں سے بچائو والے نظام کی بدولت یہ راکٹ اور ڈرون اسرائیل پر گرنے سے پہلے ہی تباہ ہو جاتے ہیں۔ سو میں سے کوئی چند ایک ہی اسرائیل میں کامیاب حملہ کرتے ہیں۔ ایران نے بھی کہا تھا کہ وہ اسرائیل کو ہانیہ کی شہادت کا خوفناک جواب دے گا۔ مگر ابھی تک خاموش ہے۔ شاید وہ حزب اللہ کو استعمال کر کے جائزہ لے رہا ہے کہ کب اور کہاں کیسے حملہ ہو۔ سچ تو یہ ہے حزب اللہ کے حملوں سے سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کا ہو رہا ہے۔ جواب میں اسرائیلی بربریت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ کئی اور علاقوں میں حملہ کر کے فلسطینیوں کی جان اور مال کو تباہ کرتا ہے۔ اب تو وہ لبنان پر حملوں کے بعد عالمی خاموشی پر اور شیر ہو گیا ہے۔ مصر کو بھی آنکھیں دکھانے لگا ہے۔ خدا جانے امریکہ نے جو مصر اور اسرائیل کے درمیان شرم الشیخ میں امن معاہدہ کرایا تھا وہ شرم کیمارے نجانے کس شیخ کے خیمے میں چھپا ہوا ہے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن