آئی ایم ایف سے نجات کیلئے  دوستوں پر انحصار کی ضرورت

عالمی مالیاتی ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاسوں کا 4 ستمبر تک کا شیڈول  جاری کردیا گیا۔ آئی ایم ایف بورڈ کے شیڈول میں فی الحال پاکستان کا نام شامل نہیں۔ وزارت خزانہ ستمبر میں آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج کی منظوری کیلئے پْرامید ہے۔
پاکستان کی وزارت خزانہ کے لیے یہ صورتحال پریشان کن ہوگی کہ جس اجلاس میں پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دی جانی ہے اس میں پاکستان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔پاکستان کو پہلے ملنے والے بیل آؤٹ پیکجز بھی کڑی شرائط کے بعد منظور کیے گئے تھے، آئندہ بھی ایسی ہی شرائط کا سامنا کرنا پڑے گا۔ایسے پیکجزحکومت کے لیے معاملات چلانے میں آسانی پیدا کرتے ہیں جبکہ عالمی اداروں کی کڑی شرائط عوام کا عرصہ حیات اجیرن کر دیتی ہیں۔مہنگائی کے طوفان میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج کل تو بھاری بھرکم بجلی کے بلوں نے عام آدمی کی قوت خرید انتہائی پستیوں تک پہنچا دی ہے۔حکومتوں کی طرف سے آئی ایم ایف کو مسیحا سمجھنا دانشمندی نہیں۔ سود خور ساہوکار کے چنگل میں پھنسا مقروض لحدتک جان نہیں چھڑا سکتا۔ پاکستان میں قیمتوں کے تعین اور ٹیکسوں میں اضافے کے لیے آئی ایم ایف کے سرعت کیساتھ اجلاس اور دورے پر دورے ہوتے ہیں لیکن اب جبکہ پاکستان کے لیے ایک اور بیل آؤٹ پیکج منظور کرنا تھا تو اجلاسوں میں پاکستان کا نام ہی شامل نہیں ہے۔عوام جس طرح مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں اسی طرح حکومت بھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا کڑا فیصلہ کر لے۔معاملات چلانے کے لیے بلا شبہ اربوں ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ سردست سات ارب ڈالر کا  پیکج چاہیے تھا۔اتنا قرض سعودی عرب چین متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے دوست دے سکتے ہیں۔ لہٰذا انہی ممالک سے رجوع کیا جائے۔ مسلم لیگ نون پاکستان کو ایشیئن ٹائیگر بنانے کے دعوے کرتے رہی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن