سلامتی کے قومی ایجنڈے کا متقاضی لہو لہو بلوچستان

سفاک دہشت گردوں‘ تخریب کاروں‘ علیحدگی پسندوں اور علاقائی عصبیت کا شکار بگڑے عناصر نے گزشتہ روز اپنی بے در پے گھنائونی وارداتوں سے بلوچستان کو لہو لہو کر دیا۔ ان وارداتوں میں 14 جوان اور 23 پنجابی آباد کاروں سمیت مجموعی 54 افراد شہید ہوئے جبکہ فورسز کی جوابی کارروائی میں 21 دہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔ اس سلسلہ میں موصولہ میڈیا رپورٹس کے مطابق موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے بسیں روک کر 23 مسافروں کو باقاعدہ شناخت کے بعد ان پر بے دریغ فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں یہ تمام مسافر جاں بحق ہو گئے۔ ان تمام مقتولین کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا۔ اسی طرح ضلع قلات میں فائرنگ سے پولیس اور لیویز اہلکاروں سمیت دس افراد جاں بحق ہوئے۔ اس گھنائونی دہشت گردی میں زخمی ہونیوالوں میں اسسٹنٹ کمشنر قلات آفتاب احمد بھی شامل ہیں۔ ایجنسیز کی رپورٹس کے مطابق دہشت گردوں نے سوئی سے پنجاب جانیوالی گیس پائپ لائن دھماکے سے اڑا دی جبکہ معدنیات لے کر جانے والی دس گاڑیاں جلا کر بھسم کر دی گئیں۔ اسی طرح قلات‘ سبی‘ پنجگور‘ مستونگ‘ تربت‘ بیلہ‘ گوادر اور کوئٹہ میں بھی دہشت گردوں نے مختلف مقامات پر حملے کئے۔ بولان میں دہشت گردوں نے انگریز دور کا ریلوے پل دھماکے سے اڑا دیا جس کے باعث پنجاب اور سندھ کیلئے ریل سروس بند ہو گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کولپور سے چار لاشیں برآمد ہوئیں جنہیں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ 
پولیس کے مطابق مسلح افراد نے بین الصوبائی شاہراہ پر ناکہ لگا کر 23 مسافروں کو کوئٹہ سے پنجاب جانیوالی بسوں سے اتارا اور انکے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد انہیں گولیوں سے بھون دیا۔ ایس ایس پی موسیٰ خیل ایوب اچکزئی نے ٹارگٹ کلنگ کے اس بہیمانہ واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مسلح افراد نے دس گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا ہے۔ قتل ہونیوالے افراد میں بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیور بھی شامل ہیں۔ دہشت گردی کی دوسری واردات قلات کے علاقے مہلسی میں ہوئی۔ ایس ایس پی دوستین دشتی کے مطابق اس واردات میں ایک پولیس سب انسپکٹر‘ چار لیویز اہلکار اور پانچ شہری فائرنگ کے نتیجہ میں جاں بحق ہوئے جبکہ واردات کے بعد نامعلوم حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پولیس کے مطابق مسلح افراد نے گزشتہ رات گئے مستونگ کے علاقے کھڈکوچہ میں بھی لیویز تھانے پر حملہ کیا تھا۔ 
پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ دہشت گردوں نے گزشتہ رات بلوچستان میں متعدد بزدلانہ کارروائیوں کی کوشش کی جس پر سکیورٹی اہلکاروں نے ان کیخلاف اپریشن کیا۔ اس کے دوران 21 دہشت گرد مارے گئے جبکہ 14 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان میں پاک فوج کے دس جوان اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے چار اہلکار شامل ہیں۔ 
صدر مملکت آصف علی زرداری‘ وزیراعظم محمد شہبازشریف‘ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگتی نے بلوچستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی ان وارداتوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اپنے الگ الگ بیانات میں باور کرایا ہے کہ دہشت گردی کسی صورت قبول نہیں‘ ذمہ داروں کو ہر صورت کیفر کردار کو پہنچایا جائیگا۔ 
بلوچستان دہشت گردی کے پس پردہ بے شک کئی عوامل کارفرما ہیں جس کے باعث ارض وطن کا یہ اہم حصہ گاہے بگاہے لہولہان ہوتا رہتا ہے۔ یہاں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ سابق جرنیلی آمر پرویز مشرف کے دَور میں بلوچ قوم پرست رہنماء نواب اکبر بگتی کی ایک اپریشن کے دوران ہلاکت کے ردعمل میں شروع ہوا تھا۔ اس ٹارگٹ کلنگ میں پنجابی آباد کاروں کو چن چن کر قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جبکہ ان وارداتوں میں ملوث انتہاء پسند بلوچوں کی عسکری تنظیموں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)اور بی ایل ایف (بلوچستان لبریشن فورس) کے ارکان پاکستان کے پرچم کی بھی توہین کرتے رہے جنہوں نے زیارت میں قائداعظم کی ریذیڈنسی کو بھی تباہ کیا۔ نواب اکبر بگتی کے قتل پر ان کا غصہ اپنی جگہ مگر اسکی آڑ میں پاکستان سے علیحدگی کی مہم چلانے اور ٹارگٹ کلنگ کیلئے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے  فنڈنگ اور اسلحے کی فراہمی کی صورت میں انکی مکمل سرپرستی اور معاونت کی چنانچہ یہ عناصر بھارت کے ایجنڈے پر کھل کھیلنے میں کامیاب ہوتے رہے۔ علیحدگی پسندوں کی اس تحریک کے دوران ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے اقتدار کے پہلے دور میں بنگلہ دیش کے سرکاری دورے پر جا کر بڑ ماری تھی کہ بلوچستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو مکتی باہنی جیسی کارروائیوں سے سقوط ڈھاکہ والے حالات سے دوچار کیا جائیگا۔ بعدازاں مودی سرکار کی شہ پر ہی بلوچ علیحدگی پسند عناصر امریکہ جا کر کانگرس سے پاکستان مخالف قرارداد منظور کرانے میں کامیاب ہوئے جبکہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ارکان بھارتی اسلحہ کے ذریعے ہی بلوچستان میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتے رہے جنہوں نے فرقہ واریت کی آڑ میں بھی بلوچ عوام کو خون میں نہلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ 
مشرف کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار حکومت میں ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور پیپلزپارٹی نے آغاز حقوق بلوچستان کے نام پر بلوچستان کیلئے خطیر ترقیاتی پیکیج کا بھی اعلان کیا جس پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد نہ ہو سکا چنانچہ بھارت کو ان حالات میں علیحدگی پسند عناصر کو اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کا موقع ملتا رہا جبکہ دہشت گردوں کو ایران کی سرحد عبور کرکے بلوچستان میں دہشت گرد حملوں کی سہولت بھی حاصل رہی ہے جس کیلئے بلوچستان میں کلبھوشن کی سربراہی میں پھیلایا گیا نیٹ ورک سرگرم عمل تھا۔ اس نیٹ ورک پر پاکستان کی گرفت کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں کافی کمی آگئی۔ تاہم گزشتہ چھ سات سال کے عرصے سے ہماری اندرونی کمزوریوں اور منافرت کی سیاست کے فروغ پانے سے دہشت گردوں کو پھر پاکستان کو کمزور کرنے کے بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کا موقع مل رہا ہے۔ 
جب پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کی جانب سے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی منظوری کے بعد پبلک جلسوں میں اعلانیہ پاکستان اور پاک فوج کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے اور پاکستان کو ایٹم بم سے تباہ کرنے کی خواہش کا اظہار شروع ہوا تو بھارت کو ان حالات میں پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کو دوبارہ متحرک کرنے کا موقع مل گیا۔ بلوچستان میں گزشتہ روز کے دہشت گردی کے واقعات پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازش کا تسلسل ہی نظر آتے ہیں جن میں بادی النظر مکتی باہنی کی طرز پر ہی کارروائیاں کی گئی ہیں۔ اگر ان وارداتوں میں بانی پی ٹی آئی کی مذموم خواہش کے مطابق پاکستان کو توڑنے کا ایجنڈا رکھنے والے اندرونی عناصر بھی ملوث ہیں تو اس سے بڑی ملک دشمنی اور کوئی نہیں ہو سکتی جبکہ ایسی وارداتوں میں سکیورٹی اداروں اور انکے اہلکاروں کو ٹارگٹ کرکے شہید کرنے والی سفاکیت کو اس سرزمین پر پنپنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بے شک یہ ملک کی آزادی و خودمختاری کے تحفظ اور سلامتی کا سوال ہے۔ اس لئے ایسے تمام عناصر کو ملک دشمن کے طور پر ٹریٹ کرکے انکے مکمل قلع قمع کی ضرورت ہے۔ اگر ان وارداتوں کی بنیاد پر ملک کی اندرونی کمزوریوں اور سکیورٹی لیپس کا تاثر پختہ ہوتا ہے تو اس سے ملک کی سلامتی کیخلاف بھارتی سازشیں مزید پروان چڑھیں گی۔ ان حالات میں قومی یکجہتی کی آج جتنی ضرورت ہے‘ اس کا تمام قومی سیاسی‘ دینی‘ عسکری اور ادارہ جاتی قیادتیں ادراک کرکے قومی سلامتی کے مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہو جائیں۔ بصورت دیگر ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

ای پیپر دی نیشن

 " چن" کتھاں گزاری آئی رات وے

شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ0300-6668477کہتے ہیں کہ نادان دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے،۔۔۔،جسکی آج واضح مثال بھی مل گئی۔۔۔،اسلام آباد میں ...