”انگلیاں اٹھنے لگیں داغ کا داماد آیا“

کیا پیپلز پارٹی اپنے آصف زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات عدالتوں کی بجائے سڑکوں پر لڑے گی؟ این آر او کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کے ”بڑوں“ کا اجلاس ایوان صدر میں آصف زرداری کی زیر صدارت ہوا تھا۔ اس اجلاس میں آصف زرداری پر اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ اس اجلاس میں ڈٹ جانے کا اعلان کس کے خلاف تھا؟ بھئی اگر آپ نہیں جانتے تو پھر ہم بھی نہیں جانتے۔ پھر سندھ اسمبلی سے بھی اعتماد کی قرارداد اسلام آباد پہنچی کہ کسی ”ملزم“ کے مدد کے لئے سب سے پہلے ”لواحقین“ ہی سامنے آتے ہیں۔ اب پیپلز پارٹی کے اراکین پنجاب اسمبلی نے بھی اعتماد کا سندیسہ ایوان صدر بھجوایا ہے۔ اس رُقعہ کی اہم بات یہ ہے کہ ”جمہوریت“ کے خلاف ہر کارروائی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔“ ظاہر ہے کہ آصف زرداری کے خلاف ملکی اور غیر ملکی عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ اب کیا آصف زرداری کے خلاف فیصلہ جمہوریت کے خلاف کارروائی سمجھا جائے گا۔ اس اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے پنجاب اسمبلی کے اراکین نے مال روڈ پر دھرنا بھی دیا۔ گئے زمانوں میں جیالوں کا کلچر ”ٹھاہ“ ہوا کرتا تھا۔ اب جیالے جماعت اسلامی والے شائستہ سے دھرنوں پر اکتفا کر رہے ہیں۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ آصف زرداری ایوان صدر پہنچنے والے تھے کہ جھٹ سے بی اے کی شرط ختم کرنے کا اہتمام کروا دیا گیا۔ شاید یہ انتظام انہوں نے ہی کیا جو آصف زرداری کو ایوان صدر میں رونق افروز دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ شرط ان کے ایوان صدر کے داخلے میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ پٹارو کیڈٹ کالج تک ان کی کچھ تعلیمی سرگرمیوں کا پتہ چلتا ہے۔ پھر لندن سنٹر میں اقتصادیات اور سیاست کا مضمون پڑھنے بھی ضرور گئے۔ لیکن لندن کی گلیوں میں گھومنے پھرنے کے سوا ان کی کسی تعلیمی سرگرمی کا سراغ نہیں ملتا۔ موصوف قابل ذکر حیثیت کے مالک بھی ضرور ہوں گے لیکن پہلے ان کا کبھی ذکر اذکار سننے میں نہیں آیا تھا۔ کراچی میں سنیما گھروں کے مالکان کئی تھے ان میں سے ایک گھرانہ ان کا بھی تھا۔ اخبارات میں ان کا ذکر بینظیر بھٹو سے منگنی کے حوالے سے شروع ہوا پھر ان کا ذکر بڑھتا چلا گیا۔ انتہائی چھلنی شدہ الفاظ میں بینظیر بھٹو کے منگیتر کو لا ابالی اور کھلنڈرا سا نوجوان ہی بیان کیا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ آصف زداری نے کہا تھا کہ جب میں نے محترمہ بینظیر بھٹو سے شادی کی تو موت کا سہرا اپنے سر پر باندھا تھا۔ لیکن عالی جناب کیا قسمت لے کر آگے ہیں کہ شہادت کی موت محترمہ بینظیر کے حصے میں آئی اور انہیں ایوان صدر میں داخلے کا پروانہ مل گیا۔ پھر ان دنوں کیا خیر سگالی ‘ سیاسی رواداری اور مفاہمت کی فضا پیدا ہو گئی تھی کہ صدارتی انتخاب میں ان کے کسی مخالف امیدوار نے بھی الیکشن کے کسی مرحلہ پر بھی ان کی اہلیت کا سوال نہ اٹھایا تھا۔ اب کئی قسم کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ شعور اس سوال کو اب ”لڑائی ختم ہونے کے بعد یاد آنے والی چپت“ جیسا معاملہ ہی قرار دیتا ہے۔ اب بات یہ پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے شروع ہوئی تھی کہ کیا پیپلز پارٹی آصف زرداری کے خلاف مقدمات سڑکوں پر لڑے گی؟ اور کیا وہ اب اس انداز میں مقدمات لڑ بھی سکے گی؟ ان کی پارٹی میں اب سن ستر والا دم خم‘ جوش و جنون نظر نہیں آ رہا۔ ادھر عدلیہ‘ میڈیا اور سول سوسائٹی اپنے پورے جوبن پر دکھائی دے رہے ہیں۔ روز اک نئی قیامت سی خبر پیپلز پارٹی پر آسمانی بجلی بن کر گرتی ہے۔ ایک تازہ خبر یوں آئی ہے۔ خبر سُننے سے پہلے یہ بات بھولنے کی نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو پر کبھی کسی مالی رغبت کا الزام بھی نہیں لگا تھا۔ یاد رہے‘ میں مالی کرپشن نہیں مالی رغبت کا لفظ استعمال کر رہا ہوں۔ یہ تازہ خبر یوں ہے کہ غیر ملکی تحائف کے ارزاں حصول میں جناب آصف علی زرداری نے تیس سالہ ریکارڈ توڑ ڈالا ہے۔ انہوں نے اپنی صدارت کے پہلے سال ہی ترانوے لاکھ روپے ادا کر کے چھ کروڑ بیس لاکھ روپے مالیت کی چار گاڑیاں حاصل کر لی ہیں۔ یہ قیمتی گاڑیاں بلٹ پروف ہیں۔ پاکستان میں عوام نہیں بلکہ صرف خواص 15 فیصد ادائیگی پر غیر ملکی تحائف قانونی طور پر حاصل کر سکتے ہیں۔ نامعلوم ان تحائف کی قیمتوں کا تعین کیسے کیا جاتا ہو گا۔ آصف زرداری کے پاس پہلے سے موجود گاڑیوں کی تعداد کتنی ہے؟ بھٹو فیملی کے یہ داماد جناب آصف علی زرداری شاید اپنے ذہن پر بہت زور دے کر بھی اپنی ملکیتی گاڑیوں کی درست تعداد نہ بتا سکیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا جیالوں کو اس مرحلے پر یہ بتانا مناسب ہے کہ ایرانی صدر احمدی نژاد کے پاس اپنی ملکیتی بس ایک ہی 82 ماڈل پھٹیچر سی گاڑی ہے۔ وہ صرف پانچ مرلے کے ایک گھر کے مالک ہیں۔ ان کے ذاتی بینک اکا¶نٹ میں بیلنس کچھ بھی تو نہیں۔ یہ اکا¶نٹ بھی ان دنوں کھولا گیا جب وہ تہران یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور بذریعہ بینک تنخواہ پاتے تھے۔ لیکن یہ بات بھی تو ہے کہ امریکہ بہادر اس سے ڈرتا ہے۔ وہ امریکہ سے بالکل نہیں ڈرتے کہ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۔ کالم کا اختتام شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے استاد حضرت داغ دہلوی کے ایک شعر کے ساتھ ۔ شاید ان کے مسائل بھی کچھ ایسے ویسے ہی رہے ہوں گے ....
گھنٹیاں بجنے لگیں داغ کا داماد آیا
انگلیاں اٹھنے لگیں داغ کا داماد آیا

ای پیپر دی نیشن