لوگ اٹھ کھڑے ہوں


 میرے ایک قاری گاہے بگاہے میرے کالموں پر تبصرے کیلئے فون کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنا تفصیلی تعارف تو نہیں کراتے مگر ان کے تجزیے کی تان ہمیشہ اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ وہ بہت باخبر ہیں۔اس باخبر قاری کا کہنا یہ ہے کہ حالات بلوچستان اور خیبر پی کے میں یقینا بہت خراب ہیں مگر آپ اپنے سندھ کی خبر لیں خاص کر کراچی کے حالات کا جائزہ لیںاور وہاں قتل و غارتگری جس انداز میں جاری ہے وہ انتخابات کیلئے نہ صرف سازگار نہیں بلکہ یہ حالات انتخابات کے انعقاد کو ناممکن بھی بناسکتے ہیں۔
 آج قومی و دفاعی کونسل کے قائدین جب کراچی پہنچے تو اخبار نویسوں نے آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل(ر) حمید گل سے پوچھا کہ ان حالات کو کیسے درست کیاجاسکتا ہے تو انہوں نے بلا تامل کہا کہ لوگ اٹھ کھڑے ہوں۔یہی بات شیخ الاسلام، ڈاکٹر طاہر القادری بھی کہتے ہیں کہ لوگ اٹھ کھڑے ہوںاور اگر دس جنوری تک اُن کے مطالبات منظور نہیں ہوتے تو وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات یہ ہیں کہ امیدواروں کو آئین میں دی گئی چھلنی سے گزاراجائے جو اس پر پورا نہ اترے اسے انتخابی اکھاڑے میں اترنے کی اجازت نہ دیجائے اسی طرح امیدواروں کے اخراجات کو کنٹرول کرنے کا ایک طریق کار موجود ہے اس پر عملدرآمد کیاجائے جو اب میں الیکشن کمشن کہے گا کہ ہم ان آئینی پابندیوں کو ہرصورت نافذ کریں گے۔الیکشن کمشن اور حکومت کی اس یقین دہانی کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری کے پا س اسلام آباد کی کال کا کیا جواز رہ جائے گا۔حالات یقینا بہت خراب ہیں۔حکومتی کارکردگی ناقص ہی نہیںبالکل ناکارہ ہے۔سارے ملک میں امن و امان نام کی کوئی چیز نہیں۔کراچی میں چیونٹی کو مارنا دشوار اور انسان کو مارنا آسان ہے۔
 عدالت عظمیٰ چیخ پکارکرکے،فیصلے دے دے کر اور قانونی واخلاقی ذمہ داریوں کا احساس دلا دلا کر تھک چکی ہے مگر صوبائی و وفاقی حکومت اپنا رویہ بدلنے کوتیار نہیں۔کوئی دن نہیں جاتا کہ کراچی میں دس پندرہ انسانوں کو موت کے گھاٹ نہ اتاردیاجائے۔اعلیٰ عدالت اپنا فیصلہ دیتی ہے،اپنا ماضی الضمیر بیان کرتی ہے،اپنی شدت احساس کا اظہار کرتی ہے،بہتے خون کو روک دینے کا حکم دیتی ہے۔ووٹر لسٹوں کو درست کرنے کا پروگرام دیتی ہے تو اس کے خلاف بیانات دئیے جاتے ہیں،احتجاج کیے جاتے ہیں۔کھلم کھلا اظہار کیاجاتا ہے کہ ہمارے قائد قانون سے ماروا ہیں۔ساری دنیا کو چاہئے کٹہرے میں کھڑا کرلو مگر ہمارے قائد سے بازپرس کا اظہار تو دورسی بات اسی کا خیال بھی دل میں نہ لاﺅ۔
دنیا کے سامنے ہماری کیا تصویر جارہی ہے؟ الیکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیا اور دوسرے ملکی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کے سامنے ہماری بڑی بھیانک تصویر جارہی ہے۔ہماری تصویر یہ ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں قانون نہیں،قانون کی حکمرانی نہیں،قانون کی عملداری نہیں کوئی کسی کا حکم ماننے کو تیار نہیں۔حکومت اپنی ہی عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کردیتی ہے ان فیصلوں کا مذاق اڑاتی ہے،انہیں پسِ پشت ڈال دیتی ہے۔
اس تصویر کے مطابق پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں بجلی ہے نہ گیس ہے۔جہاں روٹی ہے نہ روزگار ہے،جہاں معیشت تباہی سے دوچار ہے، جہاں آئی ایم ایف کے قرض کی قسط ادا کرنے کیلئے مطلوبہ رقم نہیں جہاں 40بلین ڈالر سے بڑھ کر قومی قرضے 130 بلین ڈالر ہوگئے ہیں۔مہنگائی گزشتہ پانچ برس کے دوران تین تین گنا بڑھ چکی ہے۔فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری تباہی کے دہانے پر ہی نہیں تباہی سے دوچار ہوچکی ہے۔مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔جرائم کی رفتار تیز تر ہوچکی ہے۔
ان حالات میں ہم اپنی خود مختاری سے محروم ہوچکے ہیں۔ڈرون حملے پہلے سے بہت بڑھ چکے ہیں۔ ہماری قومی آہ و بکا ڈرون حملہ آور سننے کو تیار نہیں۔سبب اس کا یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے یہ آنسو حقیقی نہیں مگر مچھ کے آنسو ہیں۔عمل اورردّعمل کا ایک ناقابل اختتام سلسلہ ہے جو چل نکلا ہے۔خودکش حملوں کی تعداد بڑھ چکی ہے اہم شخصیات کو ہدف بنایا جارہا ہے۔ہم نے پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری سے براہِ راست بات چیت کی ہے۔اُن سے سوال جواب ہوئے۔انہوں نے ہماری بات کی اور ہم نے اپنی بات انہیں سنائی ہے۔حالات کا علامہ صاحب جو تجزیہ کرتے ہیں ہمیں اس سے اتفاق ہے۔ہمیں دو پارٹیوں کے مک مکا کی تھویری سے بھی اتفاق ہے۔ہمیں اس سے بھی اتفاق ہے کو جو سیاستدان کروڑوں اور اربوں کا مالک ہو کر ٹیکس نہیں دیتا اسے عوام الناس سے ٹیکس لینے کا بھی کوئی حق نہیں۔ہمیں اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ علامہ طاہر القادری میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرسکتے ہیں اس مجمع کو اپنے پیچھے چلا سکتے ہیں۔ اندرونِ ملک اور بیرون ملک ان کے پیروکار ان کیلئے کروڑوں کا فنڈ بھی اکٹھا کرسکتے ہیں مگر جو بات ہماری سمجھ میں ہرگز نہیں آتی وہ یہ ہے کہ وہ ایک اچھی عبوری حکومت بالغرض بنوالیتے ہیں، وہ آئین کی دفعہ 62اور63 کے معیار پر بظاہر پورے اترنے والے امیدواروں کا میدان میں آنا یقینی بنالیتے ہیں ۔وہ فوج اور عدلیہ کا دست شفقت بھی فراہم کرنے کا آئینی،اخلاقی یا عملی جواز بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔مگر کیا آن واحد میں ایسی عبوری حکومت کے آتے ہی اور چٹکی بجاتے ہی ہماری اسمبلیوں کا معیار اور مزاج بدل جائیگا۔کیا ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو اس کے بعد انتخابات میں کامیابی نہ ہوگی۔ہمیں اس سے اتفاق نہیں۔جناب طاہر القادری سے ہمارا اختلاف یہ ہے کہ ان کی آخری منزل اچھی عبوری حکومت نہیں بلکہ دینی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر صادق و امین اور خدمت خلق پر سچا ایمان و اتفاق رکھنے والے امیدواروں کو انتخابی اکھاڑے میں لانا اور انہیں کامیاب کرواناچاہئے عوام کو محض یہ کال دینا کہ آپ اٹھ کھڑے ہوں یا اسلام آباد کی طرف چل پڑیں ہرگز کافی نہیں بلکہ بالکل ناکافی ہے۔علامہ طاہر القادری ہوں یا جنرل(ر) حمید گل ہوں یا تبدیلی کا کوئی اور علمبردار ہو اسے یہ کال دینی چاہئے کہ ہم انتخابی اصلاحات پر عملدرآمد کروائیں گے اور ایسے امیدوار سامنے لائیں گے کہ جو دیانت و امانت او ر اخلاص و صداقت کے اعلیٰ معیار پر پورا اتریں گے آپ انہیں ووٹ دیکر کامیاب بنائیں اور انہیں اسمبلیوں میں اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا فریضہ سونپ دیں جب یہ نمائندے اپنی خادم خلق جماعتوں اور عوام کو جوابدہ ہوں گے تب پاکستان میں حقیقی تبدیلی آئیگی۔

ای پیپر دی نیشن