سیاسی عورتوں کا غیر سیاسی کردار اور شہادت

مجھے خواجہ سعد رفیق کی یہ بات یاد ہے جب وہ مسلم لیگ ہاﺅس کی چابیاں چودھری شجاعت کے حوالے کر رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ ایک شہید خواجہ رفیق کا بیٹا دوسرے شہید چودھری ظہور الٰہی کے بیٹے کو مسلم لیگ ہاﺅس کی چابیاں پیش کر رہا ہے۔ میں ڈیوس روڈ پر مسلم لیگ ہاﺅس کے لئے آرزو رکھتا ہوں کہ یہ متحدہ مسلم لیگ ہاﺅس ہو۔ متحدہ کا لفظ اب بے قرار کرتا ہے۔ یہ مسلم لیگ ہاﺅس ہے۔ اور آجکل چوہدریوں کے پاس ہے۔ دوسرے مسلم لیگ ہاﺅس کا مجھے علم نہیں ہے۔ اس حوالے سے نواز شریف کو غور کرنا چاہئے۔ یہ میرے چیف ایڈیٹر مجید نظامی کی بھی آرزو ہے۔
خواجہ رفیق شہید کی برسی کے لئے خواجہ سعد رفیق نے سیمینار کیا۔ اخبارات میں اس کی خبر تو تھی مگر خواجہ شہید کا ذکر نہ ہونے کے برابر تھا۔ مجھے استاد محترم و محبوب علمی و ادبی سکالر پروفیسر ڈاکٹر خواجہ زکریا نے کہا کہ سیمینار میں خواجہ رفیق شہید کا ذکر واجبی سا تھا۔ سب لوگ اور نوازشریف سیاسی موضوعات پر بات کرتے رہے۔ خواجہ زکریا نے خواجہ سعد رفیق کی تعریف کی کہ انہوں نے اپنی شخصیت کو بہت نکھارا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ آجکل ان خیالات کی ضرورت ہے مگر خواجہ رفیق شہید نے بھی ایک خوبصورت نظریاتی پاکستان کے لئے شہادت کا نذرانہ پیش کیا۔ جس سیاسی صورتحال کا خواب دل والے لوگ دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی لوگوں نے مایوس کیا ہے۔ نجانے خواجہ رفیق شہید کس مٹی سے بنے ہوئے تھے۔ ایسے لوگ مسلم لیگ کا اثاثہ ہیں۔ تب مسلم لیگ تھی۔ ق ن ج اور وغیرہ وغیرہ مسلم لیگ نہ تھی۔ خواجہ سعد رفیق اپنے عظیم والد کا سچا بیٹا ہے۔ اُس کا بھائی سلمان رفیق اس کا شریک سفر ہے۔ اس کی بیوی غزالہ سعد رفیق اس کی رفیق حیات ہے۔
میں یہاں سمیحہ راحیل قاضی کا ذکر کروں گا۔ وہ بھی سٹیج پر موجود تھیں۔ مگر اس سے پہلے مسلم لیگ ہاﺅس میں آمنہ الفت کی طرف سے ورکنگ ویمن ڈے کے موقعے پر مجھے بلایا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ورکر عورتوں کے حوالے سے کہیں تقریب ہوئی ہے۔ یہاں بہت جوش و خروش سے عورتوں کے لئے آواز اٹھائی گئی۔ وہ عورتیں جو سیاسی جماعتوں میں کام کرتی ہیں۔ اُن کے کردار اور کارکردگی پر بھی بات ہوئی۔ عورت کی مظلومیت پر بات ہوئی۔ فریدہ سلہری نے کہا کہ عورت ظالم بھی ہے۔ تو مجھے خیال آیا کہ مظلوم کے اندر ظالم موجود ہوتا ہے۔ مظلوم کو معصوم بھی ہونا چاہئے۔ میرا خیال تھا کہ عورت کو مظلوم بننے کی عادت سے چھٹکارہ پانا چاہئے۔ آزادی¿ نسواں کی آزاد خیال امیر کبیر عورتوں نے عورتوں کے خلاف سازش کی ہے۔ حقوق کبھی مانگنے سے نہیں ملتے۔ مغرب بہت آگے نکل چکا ہے مگر وہاں عورت کی کوئی عزت نہیں۔ انہیں باقاعدہ زدوکوب کیا جاتا ہے۔ مشرق میں اور پاکستان میں مرد عورت کی عزت بھی کرتا ہے اور قربانی بھی دیتا ہے۔ ماں کی شخصیت عورت کے لئے خاص ہے۔ عورت اگر سچی عورت بن جائے تو یہ وطن یہ دنیا جنت بن سکتی ہے۔ یہاں این جی اوز والیاں بہت خلفشار اور انتشار پھیلا رہی ہیں۔ یہ باہر کا ایجنڈا ہے۔ خواتین و حضرات دونوں کو صرف اپنے ملک کا ایجنٹ ہونا چاہئے۔ کنول نسیم نے ابتدائی کلمات کہے اور آمنہ الفت نے اختتامی کلمات ادا کئے۔ شہید چودھری ظہور الٰہی کو یاد کیا گیا۔ چودھری برادران کی خاص ہدایت پر عورتوں کے لئے یہ سیمینار بلایا گیا تھا۔ میں بڑی تعداد میں محترم خواتین کے درمیان اکیلا مرد تھا۔ میری وہاں بہت پذیرائی ہوئی۔
خواجہ رفیق شہید کے سیمینار میں ہمیشہ خواجہ سعد رفیق مجھے بلاتے ہیں۔ مگر اس دفعہ مجھے نہ بلایا گیا۔ میں وہاں احمد ندیم قاسمی کی یاد میں ایک تقریب کے لئے پہنچا تو خواجہ عمران نذیر مجھے مل گئے مگر میں آگے نکل گیا۔ انہوں نے ایک زبردست سٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور بڑی جدوجہد کے بعد ایک مقام حاصل کیا۔ وہ دلیر آدمی ہیں اور اب دانشور آدمی بھی ہو چکے ہیں۔ بہت جرا¿ت اور استقامت سے بات کرتے ہیں۔ آج بھی خواجہ سعد رفیق نے نوازشریف کو خوشامدیوں اور سازشیوں سے بچنے کا مشورہ دیا۔ وہ لوگ مسلم لیگ ن پر قبضہ کرنے والے ہیں۔ جنرل مشرف کے ساتھیوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ نوازشریف نے کہا کہ ہمیں خواجہ سعد رفیق کے اصولوں کے ساتھ پیار ہے۔ مگر ان اصولوں پر عمل کرنے کی اہمیت پر پارٹی لیڈر کو غور کرنا چاہئے۔ عاصمہ جہانگیر رینجرز کی سکیورٹی میں الحمرا پہنچیں۔ انہیں کشمالہ طارق کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر بڑا کر پڑا مزا آیا؟ عاصمہ جہانگیر وکیلوں کی لیڈر ہیں اور اب سیاسی لیڈر بھی ہیں۔ وہ ایک قابل قبول کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ انہیں ہر پارٹی میں ساری پارٹیوں کے خواتین و حضرات موجود ہیں۔ اس طرح ہر قسم کے سیاسی لوٹے صاف نئے سرے سے ستھرے ہو کر آ جاتے ہیں۔ یہاں مفاد اور عناد ایک ہو چکا ہے اور فساد کی سیاست زیادہ ہو رہی ہے۔ آج خواجہ رفیق شہید کے سیمینار میں بھی مفاداتی سیاست پر بہت بات ہوتی رہی۔
خواجہ سعد رفیق نے ہر مکتبہ¿ فکر سے لوگ بلائے تھے۔ مگر سیاسی لوگ شاید غیر سیاسی کردار سے اب واقف ہی نہیں ہیں۔ سمیحہ راحیل قاضی نے خواجہ رفیق شہید سیمینار میں نجانے کیا کہا ہو گا مگر میں اس بے حد محترم سیاسی خاتون کو اور طرح سے جانتا ہوں۔ وہ پچھلے دور حکومت میں قومی اسمبلی کے اندر بھی سیاست کو غیر سیاسی طور پر بامقصد بنانے کی کوشش میں رہیں۔ وہاں صدر زرداری کی بہن عذرا افضل کا خاص طور پر ذکر کیا وہ قومی اسمبلی میں سمیحہ بی بی کی کولیگ تھیں۔ وہ درس قرآن میں شرکت کرتی تھیں۔ جس کا اہتمام سمیحہ راحیل قاضی کیا کرتی تھیں۔ وہ فریال تالپور سے اب بھی واقف نہیں۔ جبکہ اب صدر زرداری اپنی اس بہن سے واقف نہیں ہیں۔ عذرا افضل کو ٹکٹ بے نظیر بھٹو نے دیا تھا اور فریال تالپور کو صدر زرداری نے دیا ہو گا۔ فریال تالپور آجکل پیپلز پارٹی کی اصل چیئرپرسن ہیں۔ یہ عہدہ خاص ان کے لئے ہے۔ چیئرمین اور شریک چیئرمین اس کے آگے ہیچ ہیں۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ میں مریم نواز آئیں تو وہ سیاسی طور پر نہ آئی تھیں۔ وہاں سمیحہ راحیل قاضی بھی تھیں۔ ایک تعلیمی تہذیبی سماجی کردار بھی ہے جسے غیر سیاسی کردار کہنا چاہئے۔ اس طرف سیاسی خواتین کو توجہ کرنا چاہئے۔ ویسے اچھی عورتیں اپنے سیاسی کردار کو بھی غیر سیاسی کردار کی طرح کوئی موڑ دے سکتی ہیں۔ جو عوام کے لئے بالخصوص عورتوں کے لئے فلاحی اور اصلاحی ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے غزالہ سعد رفیق کا ذکر بھی خاص طور پر ہوا۔ وہ اپنے گھر میں محفل میلاد باقاعدگی سے منعقد کرتی ہیں۔
پچھلے دنوں سمیحہ راحیل قاضی نے حجاب کانفرنس کی تھی۔ اس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی اہلیہ نصرت پرویز اشرف مہمان خصوصی تھیں۔ وہ خاتون اول ہیں۔ مگر اکثر جیالیاں فریال تالپور کو خاتون اول سمجھتی ہیں۔ محترمہ نصرت پرویز اشرف اس دوڑ میں نہیں ہیں۔ اس بھاگ دوڑ میں پیپلز پارٹی کی بہت عورتیں ہیں جن کا نام ابھی میں نہیں لینا چاہتا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...