اسلام آباد (بی بی سی ڈاٹ کام + نیٹ نیوز) سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی تحقیقات کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ٹیم نے ان دو فوجی افسران کو طلب ہی نہیں کیا جنہوں نے لیاقت باغ کے باہر ستائیس دسمبر 2007ءکو خودکش حملے کے بعد اس وقت کے راولپنڈی پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی سعود عزیز کو مبینہ طور پر جائے حادثہ کو فوری طور پر دھونے سے متعلق ہدایات جاری کی تھیں۔ اس تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا جن فوجی افسران سے راولپنڈی پولیس کے سابق سربراہ کی موبائل فون پر بات ہوئی تھی ان کے نام کرنل توفیق اور میجر تصدق بتائے جاتے ہیں تاہم اہلکار نے یہ نہیں بتایا یہ دونوں فوجی افسران ان دنوں کہاں تعینات تھے۔ اہلکار کے بقول ان افسران کو طلب کرنے کے لئے وزارت داخلہ کو بھی خط نہیں لکھا گیا۔ ڈی آئی جی سعود عزیز ان دعوو¿ں کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں انہوں نے اس موبائل فون کا تمام ریکارڈ ایف آئی اے کے حوالے کر دیا تھا جو وقوعہ کے روز ان کے استعمال میں تھا۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں سرکاری وکیل چودھری ذوالفقار کے بقول ان فوجی افسران کو بھی طلب کیا جانا چاہئے تھا تاکہ معلوم ہو سکے اس قتل کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرما تھے۔ وفاقی حکومت نے بینظیر بھٹو کے مقدمے میں اشتہاری قرار دئیے جانے والے ملزم اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی گرفتاری کے لئے دو مرتبہ انٹرپول کو خط لکھا تاہم اس مقدمے کے سرکاری وکیل کے بقول انٹرپول کے حکام نے پاکستانی حکومت کو آگاہ کیا ہے انہوں نے پرویز مشرف سے رابطہ کیا ہے اور سابق صدر نے کہا ہے ان کے خلاف یہ مقدمہ سیاسی رنجش کی بنا پر درج کیا گیا ہے اس کی وجہ سے انٹرپول نے پرویز مشرف کی گرفتاری میں معاونت کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔ پنجاب پولیس کی طرف سے بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی تفتیش میں پرویز مشرف اور سعود عزیز کی جانب انگلیاں نہیں اٹھائی گئی تھیں لیکن ایف آئی اے کی طرف سے کی جانے والی تفتیش میں بینظیر بھٹو کے قتل کی زیادہ تر ذمہ داری سابق فوجی صدر اور سعود عزیز پر ڈالی گئی ہے جبکہ باقی معاملات میں پنجاب پولیس کی تفتیش کو ہی آگے بڑھایا ہے۔ اس مقدمے کی تحقیقات کی مد میں اب تک سات نامکمل چالان راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایف آئی اے کی طرف سے پانچ جبکہ پنجاب پولیس کی طرف سے دو چالان پیش کئے گئے۔ ایف آئی اے کی طرف سے پیش کئے گئے چالان میں 139 سرکاری گواہوں کی فہرست بھی لگائی گئی ہے۔ اس فہرست میں انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ اور وزارت داخلہ کے نیشنل کرائسز مینجنمٹ سیل کے سابق سربراہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ جاوید اقبال بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اس مقدمے کے سرکاری وکیل کے بقول تفتیشی ٹیم کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد اگلے روز پریس کانفرنس کی منصوبہ بندی آرمی ہاو¿س راولپنڈی میں تیار کی گئی تھی اور پنجاب حکومت سے رابطہ کئے بغیر اور تفتیشی ٹیم کے اعلان سے پہلے ہی پریس کانفرنس میں بینظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری تحریک طالبان کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود پر عائد کر دی گئی۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے اگرچہ وفاقی وزرا رحمن ملک، مخدوم امین فہیم، بینظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان اور صفدر عباسی کے بیانات تو ریکارڈ کئے لیکن انہیں گواہوں میں شامل نہیں کیا حالانکہ یہ چاروں افراد جائے حادثہ پر موجود تھے۔ حملے کے وقت وزیر داخلہ رحمن ملک بینظیر بھٹو کی سکیورٹی کے مشیر بھی تھے۔ سابق وزیر اعظم کے قتل کے مقدمے میں اب تک پانچ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان پانچ میں سے محمد رفاقت اور حسنین گل پر الزام ہے انہوں نے بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ آوروں بلال اور اکرام اللہ کو پناہ دی جبکہ شیر زمان، رشید احمد اور اعتزاز شاہ پر الزام ہے انہیں بینظیر بھٹو کی قتل کی سازش کا علم تھا لیکن انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ نہیں کیا۔ پرویز مشرف سمیت آٹھ افراد کو اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیا گیا ہے جن میں تحریک طالبان کے سابق رہنما بیت اللہ محسود بھی شامل ہیں۔ تفتیشی ٹیم کے بقول بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش تیار کرنے والے اور دیگر ملزمان اکوڑہ خٹک میں مدرسہ حقانیہ میں زیر تعلیم رہے جس کے بارے میں اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی پنجاب پولیس کی ٹیم نے مذکورہ مدرسہ کی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل اہلکار کے بقول اشتہاری قرار دئیے جانے والوں میں سے پانچ افراد وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں مختلف واقعات کے دوران مارے گئے۔ ان میں قاری اسماعیل، نصراللہ، علی الرحمن، فیض محمد اور عبادالرحمن شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کچھ حد تک اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے دو ملزمان رفاقت اور حسنین گل کا اشتہاری قرار دئیے جانے والے افراد کے ساتھ فرانزک رپورٹ سے تعلق ثابت ہوا ہے لیکن تفتیش کے دوران یہ بات ابھی تک ثابت نہیں ہو سکی بینظیر بھٹو کی قتل کا ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ اہلکار کے مطابق ان افراد کے پکڑے جانے کی صورت میں ہی پتہ چل سکتا تھا بینظیر بھٹو کے قتل کا ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ اشتہاری قرار دئیے جانے والوں میں سے صرف قاری اسماعیل کی سرکاری طور پر ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ باقیوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں وہ کیسے مارے گئے۔
بینظیر قتل کیس، انٹرپول نے مشرف کی گرفتاری سے معذرت کر لی، سرکاری وکیل، 2 فوجی افسروں کو شامل تفتیش نہیں کیا: تفتیشی اہلکار
Dec 28, 2012