بیجنگ (نیٹ نیوز) چین میں جدید چین کے بانی رہنما ماؤزے تنگ کی 120ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ انہوں نے اپنے تقریباً 30 سالہ ہنگامہ خیز دور میں سیاسی نعروں کو آرٹ میں تبدیل کر دیا۔ بی بی سی کے مطابق اگرچہ ماؤ کے جانشینوں نے ان کے بہت سے سخت رہنما اصولوں کو نظرانداز کر دیا ہے لیکن یہاں ذکر ہے ان 11 نعروں کا جن نے چین کی شکل تبدیل کر دی۔ ان میں پہلا نعرہ 1956ء میں مائوزے تنگ نے دیا۔ ماؤزے تنگ بڑی تگ و دو کے بعد قدیم چینی ادب کھنگال کر ایسے ہم آہنگ کہاوتیں، ضرب الامثال اور اقوالِ زریں ڈھونڈ نکالتے تھے اور اپنی تقاریر میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ’سو پھول کھلنے دیں، سوچ کے سو دھارے کو ٹکرانے دیں۔‘ یہ محاورہ چینی تاریخ کے بین الریاستی جنگوں کے زمانے سے لیا گیا ہے جس کا اختتام 221 قبل از مسیح میں ہوا تھا۔ اس محاورے کو پھیلانے کا مقصد یہ تھا کہ عوام پارٹی پر تنقید کر سکتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، تنقید شروع ہو گئی۔ حکام کے خلاف دیواروں پر پوسٹر آویزاں ہونے لگے اور طلبہ اور استاتذہ نے کھلے عام پارٹی کی پالیسیوں پر اعتراضات داغنا شروع کر دیے۔ جس پر ایک سال کے اندر اندر ماؤ نے نعرہ واپس لے لیا۔ رپورٹ کے مطابق سوچ اور عمل کی جرات پیدا کرو: 1958ء دوسرا نعرہ 1958ء میں سامنے آیا تھا۔ ماؤ کے ثقافتی انقلاب ’عظیم جست‘ کے دوران دو سال تک یہ نعرہ مرکزی اہمیت کا حامل رہا۔ ماؤ نے اس نعرے کی مدد سے کسانوں کو ترغیب دی کہ وہ مشترکہ کھیتوں میں لگن سے کام کریں۔ تاہم ہوا کیا کہ اس کے بعد سے زرعی پیداوار میں بہت زیادہ کمی واقع ہو گئی۔ اس عرصے میں کچھ ماؤ کی پالیسیوں اور کچھ قدرتی آفات کے نتیجے میں تین کروڑ چینی ہلاک ہوگئے علاوہ ازیں 1966ء میں مائو کا یہ نعرہ ’’چار بوڑھوں کو پاش پاش کرو‘‘ سامنے آیا۔ یہ نوجوانوں کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا کہ وہ ثقافتی انقلاب کے راستے میں آنے والی ہر پرانی چیز کو ختم کر دیں۔ ان پرانی چیزوں میں پرانے خیالات، روایات، ثقافت اور عادات شامل ہیں۔ کنگز یونیورسٹی کی جینفر ایتھنجر کے مطابق اس مہم کے نتیجے میں نوجوانوں نے نہ صرف پرانے معبدوں کو مسمار کیا بلکہ بہت سے عمر رسیدہ افراد اور صاحب رائے افراد پر جسمانی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا اور ان میں سے کئی مارے گئے۔ یہ مہم سال 1976 میں اختتام پذیر ہوئی لیکن اس دوران لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 1976ء میں ہی ایک اور نعرہ دیا گیا جو تھا ’’چار کے ٹولے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو‘‘ ماؤزے تنگ کی موت کے بعد قیادت کا بحران شروع ہو گیا اور ماؤ کے مقرر کردہ جانشین ہوا گیوفینگ نے قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالیں لیکن انہیں ماؤ کی اہلیہ جیانگ چنگ اور ان کے تین ساتھیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ گوفینگ نے اس نعرے کی مدد سے ان چاروں کو عظیم جست کے دوران ہونے والی ظلم و زیادتی کا مرتکب قرار دے کر جیل بھیج دیا۔ ان کے خلاف پروپیگنڈا پوسٹر چسپاں کیے گئے جس میں انہیں غدار کہا گیا۔ ان میں سے زیادہ مقبول پوسٹر میں ان کے چہروں پر سرخ کراس لگا کر لکھا گیا تھا کہ جماعت کے مخالف جتھے کو نکال باہر کر دیا جائے۔ 1979ء میں سب سے اہم نعرہ ’’کم بچے، زیادہ سور پالیں‘‘ مقامی حکام کی جانب سے یہ نعرہ کئی دہائیوں تک دیواروں پر لکھا ہوا نظر آتا رہا۔ بعد میں اس میں کئی زیادہ کھلے ڈلے نعرے بھی شامل کر لیے گئے، جیسے ’اسقاطِ حمل کرواؤ، فالتو بچے سے بچنے کے لیے کچھ بھی‘ ’ایک اور بچہ، ایک اور قبر۔‘ یا پھر یہ لرزہ خیز دھمکی ’اگر ایک گھر میں فالتو بچہ پیدا ہوا تو پورے گاؤں کو نامرد کر دیا جائے گا!‘ 2007 اور سال 2011 میں ایک بچہ پالیسی سے متعلق نعروں میں تبدیلی لاتے ہوئے تجویز کیا گیا کہ اب نسبتاً نرم قسم کے نعرے لکھے جائیں، جیسے ’تھکی ہاری دھرتی ماں مزید بچوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔‘ موجودہ چینی صدر شی جنگ پنگ نے ’’چینی خواب‘‘ کا نعرہ اس برس دیا ’’چینی خواب‘‘ تاہم ان کے سرگرم حامیوں کے لیے بھی یہ نعرہ تھوڑا سا مبہم اور غیر واضح ہے۔ واشنگٹن میں اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کے ٹوم کیلوگ کہتے ہیں: ’چینی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ اب عوام اس قسم کے نعروں پر زیادہ دھیان نہیں دیتی۔‘