نئی دہلی (ایجنسیاں) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اچانک دورہ پاکستان کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے آئندہ ماہ کے مجوزہ دورہ بھارت کو زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے اور بھارتی میڈیا نے امید ظاہر کی ہے کہ شہباز شریف ایک بار پھر وزیراعظم نریندر مودی اور دیگر رہنمائوں سے ملاقاتیں کریں گے جس سے دونوں ملک مزید قریب آئینگے۔ جنوری کے آخری ہفتے میں شہباز شریف نئی دہلی آئینگے جہاں وہ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے مزار پر حاضری دینگے اور اہم رہنمائوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ نریندر مودی کے دورہ لاہور کو ملکی و غیرملکی مبصرین اور تجزیہ کاروں نے جنوبی ایشیا کے مستقبل کے لئے خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اس سے پاکستان بھارت کشیدگی میں کمی آئے گی، خطہ خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا۔ غیرملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر ڈاکٹر وائین بام نے مودی کے دورہ لاہور کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے خوشگوار پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی ماہ کی کشیدہ صورتحال میں اعلیٰ ترین سطح پر پاکستان بھارت رابطے کی بحالی خطے کے مستقبل کے خد و خال کے تعین میں مدد دے گی۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ حالیہ اقدامات لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے خاتمے کے ساتھ باہمی تجارت کے فروغ کا ذریعہ بھی بنیں گے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب مسعود خان نے مودی کے دورے کو غیر متوقع مگر خوشگوار قرار دیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک مشکل دور سے گزر رہے تھے۔ تمام رابطے منقطع ہو چکے تھے، پاکستان اقوام متحدہ میں چلا گیا تھا اور رابطے تیسرے ممالک کے ذریعہ ہو رہے تھے۔ ایسے میں نریندر مودی کا دورہ بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ ملاقات غیر رسمی تھی تاہم ان کا کہنا تھا کہ آئندہ ماہ شروع ہونے والے باضابطہ مذاکراتی عمل پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گی۔ واشنگٹن میں مقیم ڈاکٹر زاہد بخاری نے کہا کہ دونوں ممالک میں بعض قوتیں ایسی ضرور ہوں گی جو اس پیش رفت کی مخالفت کریں گی۔ لیکن یہ مخالفت ایک دباؤ بھی پیدا کرے گی تاکہ بات چیت بامعنی ہو سکے۔ عرب نیوز سے وابستہ معروف صحافی سراج وہاب نے کہا کہ پاکستان بھارت تعلقات کی بحالی میں میڈیا کا کردار نہایت اہم ہوگا۔ امریکہ کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے مودی کے پاکستان کے مختصر دورہ کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ مودی کے دورہ پاکستان سے لگتا ہے بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کی پالیسی ترک کر دی ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ مودی کے دورہ پاکستان سے لگتا ہے بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کی پالیسی ترک کر دی ہے۔ اخبار نے بھارتی وزیراعظم کے اس اقدام کو ’’سفارتی ڈانس‘‘ قرار دیا ہے۔ دی ٹائمز نے لکھا ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات امریکی پالیسی سازوں کیلئے بہت زیادہ تشویش کا باعث تھے جن کا خیال تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان ’’پراکسی وار‘‘ کہیں حقیقی جنگ میں نہ بدل جائے۔ بھارتی وزیر اعظم نے افغانستان کے بارے میں بھی اپنی پالیسی کو نمایاں کیا ہے جس میں افغانستان کو فوجی امداد فراہم کرنا شامل ہے تاہم ذاتی سفارتکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مودی نے عوام کو یہ پیغام دیا کہ انہوں نے پاکستان سے متعلق مبہم پالیسی بدلتے ہوئے کشیدگی کی بجائے بہتر تعلقات کی راہ اپنائی ہے۔ اس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ ان کی انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ تجارت اور دہشتگردی پر مذاکرات کیلئے روڈ میپ تیار کیا ہے۔ وائس آف امریکہ کے مطابق کئی ماہ کی کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی تیزی سے بحالی ہوئی ہے جس کا آغاز پیرس میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سربراہ کانفرنس کے دوران دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان مصافحہ سے ہوا۔ ’’وال سٹریٹ جنرل‘‘ نے لکھا ہے کہ مودی کے اس اقدام سے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان مصالحتی عمل میں تیزی آسکتی ہے۔ ’’ٹائم میگزین‘‘ نے لکھا ہے کہ نریندر مودی کا مختصر دورہ پاکستان ان کی سفارتی حکمت عملی کا سب سے بڑا حیران کر دینے والا واقعہ ہے۔ امریکہ کے ’’نیشنل پبلک ریڈیو‘‘ نے اس حوالے سے کہا ہے کہ گزشتہ دس سال میں کسی بھارتی سربراہ ریاست کا یہ دورہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کا باعث ہوسکتا ہے۔ ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘ نے لکھا ہے کہ دورہ پاکستان کرکے نریندر مودی نے طویل مشکل کے بعد تعلقات میں بہتری کے حوالے سے نئی سانس لی ہے۔ امریکہ کے نمایاں تھنک ٹینک ’’کونسل آن فارن ریلشنز‘‘ کے صدر رچرڈ ہس نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلیٰ سطح کے سفارتی تعلقات کی ضرورت ہے۔