پچھلے ہفتے میں دو شخصیتوں سے ملنا بہت اچھا لگا۔ وزیر صحت عمران نذیر بذات خود وزٹ کر رہے تھے۔ محکمہ صحت کی طرف سے یہ چھاپے مارنے کا پروگرام تھا مگر انہوں نے اپنے وزیر کو بھی ساتھ لے لیا۔ ایک وزیر کو میں نے پہلی بار بنفس نفیس یہ کام کرتے ہوئے دیکھا۔ میں وزیروں کے بارے میں نہیں لکھتا۔ شکر ہے عمران نذیر نے مجھے موقع دیا۔ میں اس کا شکرگزار ہوں۔
اس کے علاوہ پنجابی ادبی سنگت کے ایک ٹرائل اجلاس سیکرٹری کے امیدوار ناصر ادیب اور جائنٹ سیکرٹری کی امیدوار آسیہ اکبر ایڈووکیٹ نے منعقد کیا۔ یہ بہت بھرپور اجلاس تھا۔ اتنی حاضری میں نے کبھی پنجابی ادبی سنگت کے اجلاس میں نہیں دیکھی۔
وزیر صحت عمران نذیر جب وزیر نہیں تھے تو میرے بہت اچھے دوست تھے۔ میں نے ہمیشہ انہیں پسند کیا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی باقاعدگی سے آتے تھے اور یونیورسٹی کے معاملات میں دلچسپی لیتے تھے۔ میں جس عمران نذیر کو جانتا ہوں وہ وزیر ہو کر بھی وزیر شذیر نہیں بنیں گے۔ ہر کسی کے دوست ہوں گے جس میں شاید میں بھی شامل ہوں۔ وزیر بننے کے بعد بہت سے دوست بچھڑ گئے مگر عمران نذیر کا جو مزاج ہے وہ اپنے دوستوں سے جڑے رہیں گے۔
ایسا مستعد اور مخلص وزیر تو میں نے دیکھا نہیں۔ وہ وزارت کے پہلے دنوں میں ہی لوگوں کی بھلائی اور بہتری کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ خود فیکٹری کے مالکان سے بات کی اور ایک بہت بامعنی جملہ کہا، کہ ان لوگوں کو خود یہ پتہ نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ یہ حال تو پوری قوم کا ہے۔ کسی چیز کے خالص یا اصل ہونے کا ثبوت نہیں ملتا۔ ہم جو کچھ کھاتے ہیں ہمیں معلوم نہیں ہے کہ ہم کیا کھا رہے ہیں۔ ہمیں جھوٹی قسمیں کھانے کی بھی عادت پڑ گئی ہے۔ ہر چیز میں ملاوٹ ہے۔ حتیٰ کہ دوائوں میں بھی ملاوٹ ہے۔
بڑی مدت کے بعد کوئی لگن والا کام کا وزیر ملا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اب یہ محکمہ کچھ تو ٹھیک ہو گا۔ اگر عمران نذیر کچھ نہ کچھ کر گئے جو اُن کے دل میں ہے تو بہت کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور اُن کے دل میں ایک تڑپ موجود ہے اور ہمیں اُن سے بہت امید ہے۔ انہوں نے جعلی ڈاکٹروں کا ذکر بھی کیا ہے۔ عطائی اور قصائی ہمارے ساتھ نجانے کیا کرنا چاہتے ہیں؟
عمران نذیر نے ایک ہی وزٹ میں ادویات بنانے والی اتنی فیکٹریاں سیل کر دیں جو صحت کے سارے وزراء مل کر بھی نہیں کر سکے۔ وزیر صحت کے ساتھ ایک ٹی وی چینل کے بھی لوگ تھے یہ مناظر سب لوگوں نے دیکھے اور سب لوگوں کے منہ سے دعا نکلی۔
میں پنجابی ادبی سنگت میں کم کم گیا ہوں مگر آسیہ اکبر ایڈووکیٹ کی دعوت پر چلا گیا۔ خوشی ہوئی کہ پنجابی ادبی سنگت کے اجلاس بھی اتنے بھرپور ہو سکتے ہیں۔ اس اجلاس کے صدر مایہ ناز دانشور اور ادیب جناب نین سکھ تھے۔ مجھے اس بھرپور اجلاس کا مہمان خصوصی بنا دیا گیا۔ یہ دوستوں کی ’’ناجائز‘‘ مہربانی تھی کیونکہ ان ادبی اجلاسوں میں مہمان خصوصی نہیں ہوتا۔ سب حاضرین صدر اور سیکرٹری سمیت مہمان خصوصی ہوتے ہیں۔ یہ چونکہ خصوصی اجلاس تھا اس لئے میں نے بھی خاموشی اختیار کی۔ یہ خصوصی عزت افزائی میرے لئے روا رکھی گئی اس کے لئے میں آسیہ اکبر ایڈووکیٹ کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ نصیر احمد نے کہانی پڑھی۔ طاہرہ سرا دیر سے آئیں۔ ان سے اس حساب سے زیادہ بولیاں سنی گئیں۔ بہت خوبصورت گہری بامعنی اور مزیدار بولیاں تھیں۔ بولیاں عام طور پر ایک شخصیت نہیں لکھتی۔ کلچر سے پھوٹتی ہیں۔
مٹی بولتی ہے تو بولی بنتی ہے۔ جو بولیاں طاہرہ سرا نے سنائیں۔ وہ بھی کئی شخصیتوں نے لکھی ہونگی۔ مجھے یقین ہے کہ طاہرہ سرا کے اندر کئی عورتیں ہونگی جنہوں نے مل کر یہ تخلیق کی۔ کہتے ہیں کہ ایک عورت کے اندر ہزار عورتیں ہوتی ہیں۔
اصل میں یہ بات میں نے کہی ہے اور یہ بات کئی دفعہ سچ ثابت ہوئی ہے۔ کالم کے آخر میں طاہرہ سرا کی چند بولیاں شامل کی جا رہی ہیں۔
نین سکھ نے پوری طرح صدارت کی۔ میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا مگر ایسا لگتا تھا کہ میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھا۔ جب مشاعرہ ہوا تو میں سٹیج سے اتر کر حاضرین میں آ بیٹھا۔ اس اجلاس کی خوبی یہ بھی تھی کہ سارے حاضرین شعرائے کرام نہ تھے۔ اجلاس میں برادرم افضل ساحر نے سب کی توجہ حاصل کی۔ اس بہت کامیاب اجلاس کے لئے آسیہ اکبر ایڈووکیٹ کی بہت کاوشیں شامل ہیں مگر وہ ایک دفعہ بھی سٹیج پر نہ آئیں۔ میں نے ان اجلاسوں میں ایسی صابر شاکر ادیب شخصیت نہیں دیکھی اور وہ تو الیکشن میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔ ایک خیال بہت فیصلہ کن ہے کہ کوئی عورت ضرور انتظامیہ میں ہونی چاہیے کہ خواتین بھی ان اجلاسوں میں شرکت کر سکیں۔
اجلاس کے بعد مشاعرہ بھی ہوا۔ حاضرین نے اس میں بھرپور دلچسپی لی۔ صدر محفل نین سکھ نے کہا کہ اجلاس کے بعد مشاعرے کی روایت ختم ہونی چاہیے جبکہ میں سمجھتا ہوں اور آسیہ اکبر ایڈووکیٹ کا بھی یہی خیال ہے کہ اس طرح ایک ماحول بنتا ہے اور بہت سے لوگوں کی وابستگی اور شرکت سنگت کے ساتھ باقی رہتی ہے۔
یکم جنوری 2017ء کو الیکشن ہو رہا ہے مجھے امید ہے کہ سنگت کے سب ممبران ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے تشریف لائیں گے۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ طاہرہ سرا کی چند بولیاں آپ کو سنائوں گا۔ تو یہ حاضر ہیں۔
اساں پورا سال ہنڈ دیاں
ملن دیاں دو گھڑیاں
مائے وار میرے توں مرچاں
بنیرے اُتے کاں بولدا
جنج ویہڑے وچ آن کھلوتی
پٹولیاں چ لُکدی پھراں
ساڈا عمراں دا لتھیا تھکیواں
وے تیرے نال گل کر کے