استنبول(آئی این پی + اے ایف پی+نوائے وقت رپورٹ) ناکام بغاوت کے الزام میں پہلی بار 29 پولیس افسروں کے خلاف کارروائی شروع ہوگئی ،افسروں نے صدراردگان کی رہائش گاہ کی حفاظت نہ کر کے بغاوت میں معاونت کی جولائی سے اب تک گرفتار افراد کی تعداد40 ہزار ہو گئی۔ ترکی میں جولائی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے الزام میں 29 پولیس افسروں کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی۔استنبول میں استغاثہ کے مطابق یہ افسران صدر رجب طیب اردوان کی رہائش گاہ کی حفاظت نہ کر کے بغاوت میں معاونت کے مرتکب ہوئے۔بتایا جاتا ہے کہ اگر الزام ثابت ہو جاتا ہے تو ان میں سے 21 افسروں کو عمر قید جب کہ دیگر کو 15 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس ناکام بغاوت کے دوران 270 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کے بعد ترک حکومت نے بڑے پیمانے پر کریک ڈان شروع کیا تھا۔جولائی سے اب تک 40 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جب کہ دس ہزار سے زائد سرکاری ملازمین، اساتذہ، ججز اور دیگر کو بغاوت کی منصوبہ بندی میں شامل ہونے کے الزام میں برخاست کیا گیا ہے۔ترکی اس بغاوت کا الزام امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کرتا ہے لیکن گولن اس کی تردید کرتے آرہے ہیں۔ناقدین بشمول مغربی دنیا اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں ترک حکومت کی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی آ رہی ہیں کہ حکومت ان کارروائیوں میں انسانی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ انھیں سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔رواں ماہ ہی انقرہ میں ایک تقریب کے دوران ایک پولیس افسر نے روس کے سفیر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ترک حکومت حملے کی پشت پناہی کا الزام بھی فتح اللہ گولن کی تنظیموں پر عائد کرتی ہے۔روس کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تحقیقات کے مکمل ہونے تک اس کا الزام کسی پر عائد نہیں کرے گی۔ ادھر ترکی کے نائب وزیراعظم نے کہا ہے حکومت کا ملک میں نافذ ایمرجنسی کی مدت بڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ایمرجنسی 20 جنوری کو ختم ہو رہی ہے۔