ٹرمپ کے نوٹس سے چند روز پہلے پاک افواج کی قیادت نے سینیٹ کی کور کمیٹی کو بند کمرے میں بریف کیا اور ایک قابلِ تحسین روایت کا آغاز کیا۔ ملک کے سرکردہ تجزیہ نگار اور محب وطن سیاستدان تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور دشمن کے عزائم سے عوام کو آگاہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے کالموں میں بھی حالات کی سنگینی کا احساس دلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ شروع شروع میں اس بات کا یقین کرنا بہت مشکل تھا کہ ملک میں افراتفری پیدا کی جاسکتی ہے کیونکہ پاکستانی عوام متحد ہیں یہاں کوئی نسلی، لسانی یا مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس کیلئے دشمنوں کی بہت سی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ ہنگامی صورت حال ہو یا ارضی سماوی آفت، 14 اگست ہو یا کرکٹ میچ، پاکستانی عوام نے زبردست اتحاد اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے لیکن اس ملک کی اشرافیہ، بیوروکریسی اور مفاد پرست سیاست دانوں نے آہستہ آہستہ منصوبہ بندی سے صورتِحال تبدیل کی امریکہ کے اثرو رسوخ کو بڑھایا۔ لالچ اور ہوس کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ قرضوں کو امداد کا نام دیکر حکومتوں کو بے بس کر دیا، تعلیم، خوراک اور صحت کے شعبوں میں بہتری کے نام پر NGO's بنا کر معاشرے کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سیاستدانوں، بیوروکریسی اور صنعتکاروں کے مفادات مغربی ممالک میں ہیں ، تہذیب، ثقافت، زبان، لباس اور اسلامی اقدار کی جگہ مغرب کی نقالی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہماری معیشت کو قرضوں میں جکڑنے اور ہمارے سیاستدانوں کو جیب میں ڈالنے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے ہمیں ’’نوٹس‘‘ پر رکھ لیا ہے۔ 20 کروڑ عوام اور ایٹمی طاقت کے حامل پاکستان کا حال یہ ہوگیا ہے کہ ٹرمپ جیسا امریکی تاریخ کا متنازعہ ترین شخص ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے۔ اب وہ اسلام دشمن طاقتوں کا پشت پناہ ہے اور یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اقدام اس امر کی دلیل ہے۔ ان کا اصل مقصد کیا ہے؟ اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ امریکہ کی موجودہ قیادت یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان میں بڑی کارروائی کیلئے حالات سازگار ہیں۔ اسکی نظر میں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے اور اب پاک چائنہ اکنامک کاری ڈور CPEC نے انکی اقتصادی اور فوجی برتری کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ CPEC کی تکمیل کے بعد خطے کی تقدیر بدل جائیگی اس لئے امریکہ اور اسکے حواری جلدی میں ہیں کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھے۔ ادھر پاکستانی فوج اور اسکی قیادت سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ دشمن کے عزائم پورے نہ ہونے دیں۔ ریاست کی ترجمانی کاکام سیاسی حکومت کو کرنا ہوتا ہے لیکن اس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ سپریم کورٹ سے پانامہ کیس میں سزا پانے کے بعد سابق نااہل وزیراعظم مسلسل ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی رٹ لگائے ہوے ہیں اب تو انہوں نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ وہ پورے ملک میں عدلیہ کیخلاف تحریک چلائیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک انتشار کا شکار ہو جائے۔ عدلیہ کیخلاف ہونے والی بیان بازی کا نوٹس نہ لینا سمجھ سے باہر ہے اگر شروع میں ہی اس زبان درازی کا نوٹس لے لیا جاتا تو آج حالات مختلف ہوتے اور وزراء ’’اچھل اچھل‘‘ کر عدلیہ کی توہین نہ کرتے۔ فاٹا کے طے شدہ معاملہ کو متنازعہ بنانے کیلئے محمود اچکزئی اور فضل الرحمن فاٹا کے عوام کی امنگوں کیخلاف جس طرح کی باتیں کر رہے ہیں اور مسلم لیگ ن کی حکومت پارلیمنٹ میں جو قلابازیاں کھا رہی ہے وہ کس بات کی غماز ہیں؟ ریاست پاکستان کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہوچکا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان واضح طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر خلاء ہوگا تو اسے ہم پورا کرینگے۔ اس میں کوئی بُرائی نہیں، آخر عوام کے مسائل تو کسی طرح حل ہونا ہی چاہئیں۔ سیاستدانوں کے کرتوتوں پر نظر ڈالیں تو وہ لوٹ مار کے ساتھ ساتھ دانستہ و نادانستہ طور پر دشمن کے ایجنڈے پر کام کرتے نظر آتے ہیں پانی کا سنگین مسئلہ کب سے درپیش ہے۔ ملک میں کالا باغ ڈیم جس پر اربوں روپیہ خرچ ہو چکا ہیں کس نے سبوتاژ کیا؟ بھارت کی پاکستان دشمن کارروائیوں کا جواب دینے کی بجائے یہ کہا گیا ہے ہمیں تو بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ ملا ہے۔ کراچی اور بلوچستان میں بھارت جو کچھ کر رہا ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ فاٹا کے علاقے میں امریکہ اور بھارت مل کر فوجی کارروائی کرتے نظر آ رہے ہیں بلوچستان کی نام نہاد تحریک کو وہ ہوا دے رہے ہیں۔ اِدھر ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو جو بھارت کا حاضر سروس نیول کمانڈر ہے اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر جس نے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کر لیا ہے اسکی ملاقات اسکی ماں اور بیوی سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کروا دی گئی ہے۔ بدلے میں بھارت نے LOC پر اچانک فائرنگ کرکے ہمارے تین جوان شہید کر دیئے ہیں۔! بھارت کی پاکستان کیخلاف تخریبی منصوبہ بندی سوویت یونین کے انہدام کے بعد تیز تر ہوگئی ہے اس نے افغانستان میں پاکستانی سرحد کیساتھ سترہ اٹھارہ قونصلیٹ قائم کر رکھے ہیں جہاں سے وہ افغانوں کو پیسہ اور اسلحہ دیکر تخریب کاری کرواتا ہے۔ بھارت کے قومی سلامتی کے وزیر اجیت دول اپنے عزائم کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کر دینگے یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ 9/11 سے بہت پہلے امریکہ افغانستان پہ حملے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ ظاہر ہے اس کا مقصد محض افغانستان پہ قبضہ نہیں تھا وہ تو پاکستان کے چین سے تعلق اور ایٹمی پروگرام کو سبوتاژ کرنا چاہتا تھا اور چاہتا ہے اسی مقصد کے تحت اس نے بلیک واٹر کے ہزاروں جاسوسوں کو باضابطہ طور پر زرداری دور میں ویزے دلوائے۔ ان جاسوسوں کا اصل مقصد پاکستان کے جوہری اثاثوں کی ٹوہ لگانا تھا اور ایسے تمام اہم مقامات کے قریب فارم ہائوس بنا کر اپنا خفیہ اڈے بنانا تھا۔ زرداری صاحب کے سفیر حسین حقانی صاحبہ کا میمو گیٹ سیکنڈل بھی ’’سول بالادستی کی ایک کوشش‘‘ تھی۔ اب نواز شریف بھی اس ’’آرزو‘‘ میں مبتلا ہیں۔ حکومت LOC پر بھارت کی آئے دن گولہ باری کو نظرانداز کر رہی ہے جبکہ اس فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں پاکستانی شہید ہوچکے ہیں۔ سفارت کاری سول حکومت کا کام ہے لیکن پہلے تو ہم نے چار سال وزیرخارجہ ہی نہ رکھا اوراب چند مہینے سے جو وزیر خارجہ بنایا ہے وہ کسی بھی طرح موجودہ حالات میں اس اہم عہدے کا اہل نہیں ہے ملک میں خارجہ امور کے ماہر اور عالمی حالات پر نگاہ رکھنے والے اہل اور قابل لوگوں کی کمی نہیں ہے لیکن ہماری حکومت اپنی ناک سے آگے کچھ دیکھ ہی نہیں سکتی۔ آنیوالے دنوں میں بڑی تیزی سے صورتحال تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم محب وطن پاکستانیوں کو اندھیرے میں نہ رکھیں انہیں علاقائی اور بین الاقوامی سازشوں سے آگاہ کریں۔ جارحیت کے جواب کیلئے گلی محلے اور شہر کی سطح پر رضاکار تنظیموں کو تربیت دیں اور جدید ہتھیاروں کے بارے میں جانکاری مہیا کریں دشمن آپ سے بہت بڑا ہے اس لیے دنیا میں اپنے دوستوں کی معاونت اور ان کا بھرپور تعاون ضروری ہے تاکہ نوٹس دینے والوں کو اندازہ ہو جائے کہ پاکستان تنہا نہیں۔
ٹرمپ کا نوٹس … امریکہ کا اعلانِ جنگ
Dec 28, 2017