باغوں کے شہر میں تعفن؟

Dec 28, 2019

خالد کاشمیری

وجوہ خواہ کچھ بھی ہوں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر لاہور بھی گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کی آماجگاہ بننے کی طرح گامزن ہو رہا۔ اس سلسلے میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں سابقہ حکومت کی باقیات بیورو کریسی کے کل پرزوں کے باہمی گٹھ جوڑ سے باغوں کے شہر لاہور کو صاف ستھرا رکھنے کے حکومتی منصوبوں کو ناکام بنا کر رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے زیر اہتمام شہر تو صاف ستھرہ رکھنے اور اسے کوڑا کرکٹ سے میں کئی کئی ماہ کی ادائیگی میں تعطل پیدا کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں سینٹری ورکرز نے تین ماہ کی تنخواہ نہ ملنے پر ہڑتال کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں شہر کے متعدد مقامات پر لگے گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں نے تعفن پھیلا رکھا ہے۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے زیر اہتمام سابقہ دور حکومت میں دو ترک اداروں ابراک کمپنی اور اوزپاک کمپنی کو لاہور کے مختلف علاقوں سے گندگی اور کوڑا کرکٹ اٹھا کر ٹھکانے لگانے کا کام سونپا گیا ہے اور یہ حقائق زبان رد عام ہیں کہ ان کمپنیوں کی طرف سے سابق دور حکومت کی تعینات کردہ بیورو کریسی کے مخصوص مفادات کے تحت یہ کام مختلف نجی اداروں کے حوالے کر دیا گیا۔ جو مختلف ناموں سے کام کر رہے ہیں اور کسی باقاعدہ تقرر نامہ کے بغیر سینٹری ورکرز اور سپروائزری سٹاف کو ڈیلی ویجز کے طور پر ملازم رکھ کر ان سے کام لیا جا رہا ہے۔ مختلف ناموں کی مقامی کمپنیوں کی طرف سے سینٹری ورکرز اور نگراں عملے کو کسی تقرر نامہ کی بجائے اپنا شناختی کارڈ بنک کو دکھا کر ماہوار معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔ ان ملازمین کی طرف سے تقرر ناموں کے اجراء کی تمام تر کوششیں گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں تعینات ایسے افسروں اوزپاک کمپنی اور البراک کمپنی کے ذمہ داروں کے مابین مخصوص مقاصد کے تحت گٹھ جوڑ ہے۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے بیشتر اہم عہدوں پر سابقہ حکومت ہی کے من پسند لوگ تعینات ہیں۔ جو اپنے یقینی فرائض کی ادائیگی سے زیادہ ایسے مقامی افراد کی ان کمپنیوں کا مفاد عزیز ہے اور وہ انہی کے مفادات کے تحفظ کو اولیت دیتے ہیں۔ جنہیں اوزیاک اور ابراک کمپنی نے لاہور کی صفائی اور کوڑا کرکٹ کو اٹھانے کا کام ٹھیکے پر دے رکھا ہے۔ اس طرح سابقہ حکومت کے ارباب اختیار کے مخصوص مفادات کی روشنی میں ایک الجھے ہوئے نظام نے جہاں کم تنخواہ بارے والے سینٹری سٹاف اور سپروائزری سٹاف کے استحصال کا راستہ ہموار کر رکھا ہے۔ وہاں ان کی تعینات اس محکہ کی بیورو کریسی کی بھی وقت لاہور کو گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں میں تبدیل کرنے میں اپنا کام دکھا سکتی ہے جبکہ اسکا مظاہرہ حال ہی میں دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک کی کروٹیں لبنی ہوئی سیاسی اور معاشرہ میں تبدیل ہوتی ہوئی فضا ہیں یہ حقیقت کس قدر تکلیف دہ اور باعث تعجب ہے کہ صوبائی دارالحکومت لاہور کے ایک اہم ترین محکمہ کے ہزار یا کم تنخواہ پانے والے ملازمین کو سابقہ حکومت کے استحصالی نظام ملازمت سے نجات دلانے کی طرف ابھی تک توجہ دینے اور اسے ختم کر کے ملازمین کو انصاف دلانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کہنے کو تو اوزہاک اور ابراک کمپنیوں کو لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی طرف سے لاہور بھر کو گندگی اور کوڑا کرکٹ سے پاک کر کے اسے ٹھکانے کا کام سونپا گیا۔ مگر اس کا کھوج لگانے موجودہ حکومت نے بھی کوئی کوشش کرنا ضروری نہیں سمجھی کہ جو مقامی ادارے یا کمپنیاں ٹھیکے یا کسی باہمی گٹھ جوڑ سے یہ کام انجام دیتے ہوئے ہزاروں محنت کشوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ انکے حقیقی مالکان کا حدود اربعہ کیا ہے؟ اور انہیں کس بنیاد پر اس اہم ترین کام کے قابل سمجھا گیا تھا؟ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے تمام معاملات کی چھان بین سے جہاں بہت سے راز افشا ہوں گے وہاں یہ راز بھی منکشف ہو گا کہ لاہور کا ویسٹ ٹھکانے لگانے کا فرض کونسے لوگ یا ادارہ کتنے روپوں کے ٹھیکہ کے عوض کر رہا ہے؟ اور اس کام میں اضافہ کب اور کیوں ہوا اور کس کے اشارے یا حکم پر ہوا؟ تو سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لاہور کو گندگی اور کوڑا کرکٹ سے پاک صاف کرنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے سینٹری اور سپروائزری سٹاف کو گزشتہ کئی ماہ سے بروقت معاوضہ نہ ملنے کی وجہ کہا ہے؟ ان مظلوم ہزاروں ملازموں کو ہر ماہ دیر سے بلکہ تقریباً ایک ایک ماہ کی تاخیر سے معاوضہ کی ادائیگی میں جس اذیت کا انہیں سامنا کر نا پڑتا ہے اسکی ذمہ داری کن ارباب اختیار پر عائد ہونی ہے؟ کیا سابقہ حکومت کی تعینات بیوروکریسی کے کل پرزوں کو اسی طرح ایک ایک ماہ کی تاخیر سے وہ بھاری معاوضے ادا ہوتے ہیں۔ جو سابقہ حکمرانوں نے ایسے بہت سے افسروں کو نوازنے کیلئے کسی میرٹ کے بغیر بھاری معاوضوں پر تعینات کیا ہوا ہے؟جن سینٹری ورکروں کو تین تین ماہ سے تنخواہ نہ ملے یا ہر ماہ کی یکم تاریخ کو ملنے والی تنخواہ میں کم و بیش 25/26 روز یا ایک ماہ کی تاخیر کر دی جائے۔ تو ایسے بدقسمت ملازمین کے لاکھوں افراد خانہ جن میں عورتیں بچے اور ضعیف العمر والدین بھی شامل ہوں گے۔ جن مالی پریشانیوں اور ذہنی کوتتوں کا شکار ہوں گے اس کا انداز وہ افسران نہیں لگا سکتے۔ جن کی روایتی سنسنی اور عدم توجہی سے لاکھوں لوگ بدحالی کی زندگی گزار رہے ہوں۔ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی عذر غریب ملازمین کی تنخواہوں میں ناقابل یقینی حد تک تاخیر یا عدم ادائیگی کے حوالے سے قبول کرنا حکومت کی یا ارباب اختیار کی طرف سے مبنی پر انصاف اقدام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ معاوضوں میں عدم ادائیگی یا تاخیر کا کوئی بھی جواز قابل قبول قرار نہیں جا سکتا۔جہاں تک لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے سینٹری اور سپروائزری سٹاف کی ہڑتال یا ان کے معاوضے میں تاخیری حربے اور عدم ادائیگی کا معاملہ ہے تو یہ مسئلہ براہ راست لاہور میں گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں سے تعفن پھیلا کر اسے کراچی کے حالات سے دوچار کرنے کی سازش ہے۔ جسے ناکام بنانے کے لئے موجودہ حکومت کو ہوش کے ناخن لے کر برق رفتاری کے ساتھ معاملے کی چھان بین کرنی ہو گی۔

مزیدخبریں