اختیارات و وسائل نچلی سطح تک

Dec 28, 2019

رحمت خان وردگ....

دنیا بھر میں اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک تقسیم سے ہی عوام کے مسائل بھی حل ہوئے‘ ٹیکس وصولی کا نظام بھی مؤثر بن سکا اور عوام میں بے چینی کا خاتمہ بھی ممکن ہوا۔ وہ ممالک جلد ترقی کی منازل طے کرگئے جنہوں نے اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک تقسیم ممکن بنائی۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہ تو اب تک ہوا ہے اور نہ ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ صرف جنر ل مشرف نے اپنے دور میں اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک بہترین تقسیم کا نظام رائج کرکے ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے۔ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوتے تھے۔ جنرل مشرف کو بے شک ڈکٹیٹر کہا گیا لیکن ان کے دور میں بنیادی سطح کی بہترین جمہوریت نظر آئی اور ہر گلی محلے میں ان کے اپنے نمائندے منتخب ہوکر بنیادی مسائل حل کراتے رہے اور انہی کے دور میں کراچی کے ناظم کو ایشیاء کا سب سے بہترین ناظم قرار دیا گیا۔ان کے دور حکومت میں کہیں بھی صوبوں کے قیام کا مطالبہ نظر نہیں آیا کیونکہ ملک بھر میں مساوی نظام رائج تھا اور اختیارات ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح تک تقسیم تھے اور وسائل بھی اسی شرح سے منصفانہ تقسیم ہوئے جس سے کہیں بے چینی نظر نہیں آئی۔
اب نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے اور ان میں شدت آتی جارہی ہے کیونکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل نہیں ہورہے اور اختیارات مرکز اور صوبوں نے نچلی سطح تک تقسیم نہیں کئے اور وسائل کی تقسیم بھی درست نہیں ہے۔ ماضی میں بھی یہی کہا جاتا رہا کہ لاہور اور اس کے گرد و نواح پر بے پناہ وسائل خرچ کئے گئے اور باقی صوبے کو یکسر نظرانداز کیا گیا لیکن اب بھی ایسا ہی ہے۔ گزشتہ حکومت میں کے پی کے میں بھی بلدیاتی نظام کوئی آئیڈیل نہیں تھا اور درست طریقے سے اختیارات و وسائل نچلی سطح تک تقسیم نہیں کئے گئے۔
امریکہ میں ہر ایک کروڑ کی آبادی کے لئے ایک صوبہ/ریاست قائم ہے جو دفاع‘ خارجہ ‘ خزانہ اور مواصلات کے علاوہ تمام امور میں مکمل بااختیار ہے۔ امریکہ میں صوبے نے بھی اختیارات کو ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر اس طرح سے تقسیم کر رکھا ہے کہ عوام کو ریاست کے وسائل اور اختیارات سے ان کی دہلیز پر سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ امریکہ میں کہیں بھی علیحدگی کی تحریک یا بے چینی نظر نہیں آتی۔ ہمارے ہاں تقریباً 22کروڑ سے زائد آبادی کو 5صوبوں میں کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور یہی سلسلہ تاحال جاری ہے حالانکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کو 22صوبوں میں تقسیم کرکے ایسا نظام بنایا جانا چاہئے جس سے عوام کو ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر اختیارات اور وسائل میسر ہوں اور مرکز کے پاس صرف دفاع‘ خزانہ‘ خارجہ اور مواصلات کی وزارتیں ہوں باقی تمام امور بتدریج صوبوں‘ ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر تقسیم ہونے چاہئیں۔
دنیا بھر میں آبادی کے تناسب سے صوبوں کا خودکار قیام عمل میں آرہا ہوتا ہے اور کہیں کوئی شور نہیں ہوتا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے ہی صوبوں کے غلط نام لسانیت کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں اور ہر صوبہ ایک مخصوص زبان بولنے والوں کا علاقہ تصور ہوتا ہے جس سے تعصب میں اضافہ ہوا اور اسی وجہ سے نئے صوبوں کا قیام بھی لسانیت کی بنیاد پر کئے جانے کے مطالبے ہوتے ہیں جیسا کہ سرائیکی صوبہ یا ہزارہ صوبہ کی بات کی جاتی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ پہلے ہی صوبوں کے نام اسی بنیاد پر ہیں۔ خدارا ملکی قیادت کچھ ایسا کرے کہ ملک سے لسانیت کا خاتمہ ہو اور ہر ایک کروڑ آبادی کو علیحدہ صوبہ بناکر اس کی اپنی ہائی کورٹ ہونی چاہئے اور تمام اضلاع میں متعلقہ ہائی کورٹ کے بنچ قائم کرکے عوام کو جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اسی طرح موثر بلدیاتی نظام رائج کرکے لوکل ٹیکس کی منصفانہ وصولی اور وسائل و اختیارت کے استعمال سے عوام کے مسائل کا حل یقینی بنایا جائے۔
سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ہی بہترین معاشرے کی بنیاد رکھتی ہے لیکن یہاں یہ حالت ہے کہ عوام کو ہائی کورٹ میں انصاف کے حصول کے لئے سینکڑوں کلومیٹر سفر کرنا پڑتا ہے اور وہاں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ کیس چلے بغیر نئی تاریخ مل گئی ہے اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک چل رہا ہوتا ہے اور ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کئی نسلوں کو انصاف کے حصول کا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ انصاف کی تاخیر سے فراہمی دراصل ناانصافی ہی ہے جس سے معاشرے میں جنگل کا قانون نافذ ہوجاتا ہے۔ ہمارے آس پاس آئے روز ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جس سے جنگل کے قانون کا گمان ہوتا ہے لیکن کبھی بھی اہل اقتدار نے سنجیدگی سے یہ نہیں سوچا کہ اس کے مکمل خاتمے کے لئے ہم کونسے بنیادی اقدامات کرکے انصاف کی فراہمی کو ہر صورت یقینی بنائیں جس سے ایسے واقعات کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی اس وقت کچرے اور غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے اور مرکز‘ صوبہ اور سٹی حکومت میں باہم اختیارات و وسائل کی جنگ مسلسل جاری ہے اور یہی سلسلہ جاری رہا تو کراچی دنیا کے گندے ترین شہروں میں سرفہرست آجائے گا جبکہ یہی کراچی تھا جو ’’ڈکٹیٹر‘‘ کی حکومت میں بہترین ناظم کا ایوارڈ لے رہا تھا۔ کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور سیوریج کا نظام بھی ناکارہ ہوچکا ہے جس کی جھلک معمولی برسات کے بعد نظر آتی ہے اور شہر پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔
کتنے ہی مسائل ہیں جن کے حل کے لئے ٹھوس عملی اقدامات تبھی ممکن ہوسکیں گے جب نظام میں یکسر مناسب تبدیلی لاکر اختیارات و وسائل کی نچلی سطح تک تقسیم نہیں ہوجاتی۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت عوام کے مسائل کے حل کی جانب تیز ترین پیشرفت کی ہے۔
بھارت پاکستان پر چڑھائی کے لئے پر تول رہا ہے۔ ایسے عالمی حالات میں ہمیں اندرونی یکجہتی کی کوشش کرنی چاہئے۔ ماضی میں ہم صوبائی تعصب کی بنیاد پر گئے گئے اقدامات کے نتائج بھگت چکے ہیں جس سے دشمن بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔

مزیدخبریں