زمین کے  مقناطیسی قطب شمالی  نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کے ذہنوں کو گھما دیئے

زمین کا مقناطیسی قطب شمالی دنیا بھر کے سائنسدانوں کے ذہنوں کو گھمانے کا باعث بن رہا ہے۔گزشتہ 40 برسوں کے دوران مقناطیسی قطب شمالی قطب نما میں ہر سال اوسطا 30 میل حرکت کررہا ہے۔ستمبر میں مقناطیسی شمالی قطب مختصر وقت کے لیے ارضیاتی شمالی قطب سے بھی مل گیا تھا۔مگر مقناطیسی قطب شمالی مسلسل حرکت کر رہا ہے اور اپنے سابق مرکز کینیڈا سے سربیا کی جانب بڑھ رہا ہے۔برٹش جیولوجیکل سروے سے تعلق رکھنے والے ایک سائنسدان Ciaran Beggan کے مطابق مقناطیسی شمالی قطب نے گزشتہ 350 سال کینیڈا کے ایک ہی حصے میں گھومتے ہوئے گزارے، مگر 1980 کی دہائی سے حرکت کرنے کی شرح 6.1 کلومیٹر سالانہ سے 31 کلومیٹر سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔Ciaran Beggan ان سائنسدانوں کے گروپ میں شامل ہیں جو اس قطب کی سرگرمیوں کو سالانہ بنیادوں پر ٹریک کرتے ہیں اور اس حوالے سے ورلڈ میگنیٹک ماڈل (ڈبلیو ایم ایم) کو آگاہ کیا جاتا ہے جو زمین کے مقناطیسی میدان کا نقشہ ہے۔ڈبلیو ایم ایم کی تازہ ترین اپ ڈیٹ کے مطابق مقناطیسی قطب شمالی اب بھی آگے بڑھ رہا ہے مگر اب اس کی رفتار 24.8 سال فی میل تک گھٹ گئی ہے.سائنسدان نے بتایا ' 2040 تک تمام قطب نما ممکنہ طور پر اصل شمال کو مشرق کی جانب دکھائیں گے جبکہ مقناطیسی قطب شمالی شمالی روس کی جانب دور نکل جائے گا'۔زمین کا مقناطیسی میدان ایسی ارض مقناطیسی توانائی رکھتے ہیں جو زمین کو جان لیوا اور تباہ کن سورج کی ریڈی ایشن سے بچاتی ہے، اس کے بغیر شمسی ہوائیں زمین کے سمندروں اور ماحول کو ختم کرسکتی ہیں۔Ciaran Beggan نے بتایا کہ مقناطیسی میدان اور اس کے قطب ساکن نہیں، 1831 میں جب سائنسدانوں نے مقناطیسی قطب شمالی کو دریافت کیا تھا، اس وقت سے یہ اپنی جگہ سے 14 سو میل دور حرکت کرچکا ہے، اس کے مقابلے میں گزشتہ دہائی میں مقناطیسی قطب جنوبی نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی۔مقناطیسی میدان جی پی ایس ایپس اور کمرشل فضائی کمپنیوں کے لیے ضروری ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر 5 سال بعد بی جی ایس اور این او اے اے کی جانب سے عالمی مقناطیسی ماڈل کا اپ ڈیٹ ورژن جاری کیا جاتا ہے۔یہ عالمی نقشہ ہر 5 سال بعد یہ نہیں دکھاتا کہ زمین کا مقناطیسی میدان اب کیسا ہے، اس کی بجائے یہ نمبروں کی ایک فہرست ہوتی ہے جو ڈیوائسز اور نیوی گیٹرز کو یہ جاننے میں مدد دیتا ہے کہ مقناطیسی میدان زمین میں اگلے 5 سال میں کیسا ہوگا۔یہ نقشہ آخری بار 2015 میں اپ ڈیٹ ہوا تھا اور 2020 میں اسے پھر اپ ڈیٹ کیا جانا تھا۔مگر حال ہی میں مقناطیسی قطب شمالی کی رفتار زیادہ بڑھ گئی جس سے ڈبلیو ایم ایم اب پہلے جیسا مستند نہیں رہا اور اسی وجہ سے اسے اگلے سال فروری کی بجائے 10 دسمبر کو ہی جاری کردیا گیا۔تاہم سائنسدان کا کہنا تھا کہ اس نقشے اور مقناطیسی قطب کی حرکت میں فرق ہمیں اتنا متاثر نہیں کرتا جتنا کوئی اندازہ لگاسکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ قطب نما اور جی پی ایس معمول کے مطابق کام کرتے رہیں گے، اس حوالے سے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کہ روز مرہ کی زندگی متاثر ہوگی۔اس غیر معمولی سرگرمی کے حوالے سے ایک خیال یہ ہے کہ اس کی وجہ مقناطیسی میدان کا کمزور ہونا ہے۔مینیسوٹا یونیورسٹی کے ایک سائنسدان جسٹن رینیوف نے اس حوالے سے کچھ عرصے پہلے بتایا تھا کہ مقناطیسی میدان کمزور ہونے کے عمل میں مقناطیسی قطبین اپنی جگہیں بدل لیتے ہیں۔ایسا زمین کی تاریخ میں کئی بار ہوچکا ہے اور آخری بار 7 لاکھ 80 ہزار سال پہلے ہوا تھا۔جب قطبین اپنی جگہ تبدیل کرتے ہیں تو مقناطیسی میدان کی طاقت میں 30 فیصد تک کمی آتی ہے، اس عمل یں مقناطیسی قطب شمالی کی مضبوطی بھی کم ہوتی ہے اور کئی بار وہ کچھ وقت کے لیے غائب بھی ہوجاتا ہے، جب ایسا ہوتا ہے تو قطب نما ان مقامی مقناطیسی شمالی قطبین کی جانب پوائنٹ کرتا ہے جو پورے سیارے میں پھیلے ہیں۔مگر یہ عمل اتنے عرصے میں مکمل ہوتا ہے کہ زمین پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوتے، تبدیلی کا یہ عمل آخری بار 22 ہزار سال پہلے مکمل ہوا تھا۔درحقیقت سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کو تو کبھی علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس عمل کے دوران زندگی گزار رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن