پرویزمشرف اور مسئلہ کشمیر

پرویز مشرف جب صرف آرمی چیف تھے تو انہوں نے کشمیر کا فوجی حل نکالنے کی کوشش کی اور کارگل کی لڑائی لڑی۔ وہ اس کاروائی پر فخر کرتے ہیں اور اسکی ناکامی کاذمہ دار سیاسی قیادت کو ٹھہراتے ہیں ۔وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ اسکے بعد مسئلہ کشمیر پر جو بھی پیش رفت ہوئی وہ کارگل کی وجہ سے ہوئی ۔صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انکی سوچ میں یکسر تبدیلی آگئی وہ نہ صرف فوجی حل کی بات نہ کرتے تھے بلکہ حریت پسندوں کی کاروا یاں بند کروانے میں بھی ان کا بڑا کردار تھا ۔ جس وقت 1999میں پرویزمشرف نے پاکستان میں اقتدار سنبھالا ہندوستان میں انکا بہت منفی امیج تھا ۔لیکن 2001میں میں ہندوستان کے وزیر اعظم واجپائی نے انکو ہندوستان آنے کی دعوت دی اور پھر آگرہ میں سربراہی ملاقات ہوئی ۔اس ملاقات کا کوئی اعلامیہ جاری نہ ہو ا جس سے یہی تاثر ابھرا کہ دونوں لیڈر کسی بات پر متفق نہ ہو سکے پھر دلی میں پارلیمنٹ پر حملہ کا واقعہ ہو گیا جسکا ذمہ دار ہندوستان کی حکومت نے پاکستان کو ٹھہرایا اور شدید کشیدگی پیدا ہوگئی ۔دونوں ممالک کی افواج تمام تیاری کے ساتھ آمنے سامنے آکھڑی ہوئیں ۔یہ صورت حال کافی طویل عرصہ جاری رہی ۔لیکن کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم واجپائی مسئلہ کشمیر حل کر کے تاریخ میں نام رقم کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے2003میں سرینگر میں پاکستان کیطرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا اعلان کیا ۔ اس کا کشمیر  اور پاکستان میں بہت خیر مقدم کیا گیا اور کشیدگی میں واضع کمی آگئی ۔جنوری 2004میں اسلام آباد سارک کا نفرنس میں واجپائی تشریف لے آئے اور کانفرنس کے بعد وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی اور پھر  پرویزمشرف سے بھی ملاقات ہوگئی ۔اس ملاقات کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے دو بنیادی نکات تھے۔اول یہ کہ جنرل مشرف نے واجپائی کو یقین دلایا کہ پاکستان کے زیر اثر کسی علاقے (یعنی پاکستان اور آزاد کشمیر )کو دہشت گرد کاروایوں کیلئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔اور دوسرا نکتہ یہ تھا کہ بات چیت کا آغاز کیا جائے گا جس سے دونوں کے مابین تنازعات بشمول جموں کشمیر دونوں ملکوں کی تسلی کے مطابق حل کر لئے جائینگے ۔اس اعلامیہ کا عام طور پر خیر مقدم کیا گیا لیکن مسلح جد و جہد کرنے والی حریت پسند تنظیموں نے مخالفت کی۔
اس اعلامیہ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی مسلح جدوجہد آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی کیونکہ آزاد کشمیر جو کہ آزادی کشمیر کی جد و جہد کا بیس کمیپ تھا وہاں سے حریت پسندوں کا مقبوضہ کشمیر میں داخلہ بند ہو گیا ۔ملاقاتوں اور سفارتکاری کا دور شروع ہوا جس میں سب سے اہم بیک چینل ڈپلومیسی تھی جو2004سے2007تک جاری رہی ۔ اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید قصوری صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اگر مشرف کچھ وقت اور اقتدار میں رہتے تو کشمیر کا مسئلہ اسی ڈپلومیسی کے ذریعے ہمیشہ کیلئے حل ہو جاتا ۔اس دعویٰ کے بعد ضروری ہے کہ اس بیک چینل ڈپلومیسی کو تفصیل سے دیکھا جائے ۔ان بیک ڈور رابطوں میں مشرف کے دست راست طارق عزیز تھے ہندوستان کیطرف سے مختلف اوقات میں لامامشرا اور ڈکشٹ فرائض سر انجام دیتے رہے ۔طارق عزیز پیغام لیکر آتے تھے اور آرمی ہاؤس میں مشاورت ہوتی تھی جس میں جنرل مشرف ،قصوری صاحب اور سینئر فوجی قیادت ہوتی تھی ۔ہندوستان میں وزیر اعظم اور انکے سیاسی مشیر جواب کیلئے مشاورت کرتے تھے ۔قصوری صاحب کے مطابق جس فارمولے پر تقریباً اتفاق ہوچکا تھا سکے چار نکات تھے ۔پہلا فوجوں کا انخلا (Demiliterization)قصوری صاحب کا کہنا ہے کہ کشمیر یوں کا سب سے پہلا مطالبہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر سے ہندوستان کی فوج کو نکالا جائے ۔جب ہندوستان کے سامنے یہ بات رکھی گئی تو انہوں نے کہا کہ پھر آزاد کشمیر سے پاکستانی فوج نکالی جائے ۔پاکستان کا استدلال تھا کہ آزاد کشمیر کے لوگوں کا تو یہ مطالبہ نہیں لیکن ہندوستان نہ مانا تو معاہدہ کو کامیاب بنانے کیلئے پاکستان اس پر راضی ہو گیا ۔دوسرا نکتہ تھا خود مختار حکومت(Self Governance)۔قصوری صاحب لکھتے ہیں کہ جب ہم نے کہا کہ کشمیر میں خود مختار حکومت ہونی چاہیے تو ہندوستان نے کہا کہ ہم اتنی ہی خود مختاری دے دیں گے جتنی پاکستان نے اپنے زیر اثر کشمیر کو دے رکھی ہے ۔ایک مرتبہ پھر معاہدے کو کامیاب بنانے کیلئے ہم اس بات پر راضی ہوگئے کہ دونوں طرف کے کشمیر کو برابر کی خودمختاری حاصل ہو گی۔اور ہم اپنی طرف ضروری تبدیلیاں کرلیں گے جن کی تفصیل نہیں بتائی ۔قصوری صاحب یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہے کہ شاید ہندوستان آپ پر طنز کر رہا ہے اور اسکا مطلب ہے کہ فیصلے سرینگر کے بجائے دہلی میں ہونگے جیسا کہ مظفر آباد کے بجائے اسلام آباد میں ہوتے ہیں ۔
تیسرا نکتہ کشمیر کے یونٹوں کی حد بندی (Delimiting Units of Kashmir)تھا۔یہاں یہ مشکل پیش آئی کہ ہندوستان نے کہا کہ گلگت  بلتستان کو کشمیر کا حصہ دکھایا جائے گا جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ یہ علاقہ تاریخی طور پر کشمیر کا حصہ نہ تھا اور ڈوگرہ حکمرانوں نے اس پر قبضہ کر رکھا تھا ۔1947میں گلگت سکاؤٹ نے ڈوگرہ فوج کو شکست دے کر اسے پاکستان میں شامل کر دیا ۔لیکن ہندوستان نے واضح کر دیا کہ اگر ایسا نہ مانا گیا تو معاہدہ نہ ہو گا ۔اب پھر معاہدہ کرنے کی خاطر لچک دکھائی گئی۔اسطرح کشمیر کے دو یونٹ بنائے گئے ۔پاکستان کے زیر اثر آزاد کشمیر اور گلگت  بلتستان اور ہندوستان کے زیر اثر وادی کشمیر جموں اور لداخ ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بات پر اتفاق ہوا کہ اپنے اپنے یونٹ کی سکیورٹی کی ذمہ داری پاکستان اور ہندوستان پر ہو گی۔معاہدہ کے پہلے حصہ میں تمام فوجیں نکال دی گئی ہیں تو سکیورٹی کون کرے گا؟
آخری نکتہ جس پر بات چیت جاری تھی وہ تھا مشترکہ حکومت (Joint Mechanism)اسکے تحت دونوں خود مختار حکومتوں کے اوپر ایک انتظام ہوتا جس میں دونوں یونٹوں کے منتخب نمائندے اور پاکستان اور ہندوستان کے نمائندے ہوتے اور وہ تمام معاملات دیکھتے جو کہ خود مختار حکومتوں کے دائرہ اختیار میں نہ تھے۔یہ ایک ایسی نا ممکن سی حکمت عملی ہے جو کہ شاید دنیا میں کہیں اور موجود نہیں اورکہیں ہے بھی تو یہ یقیناً ممکن نہیں کہ کسی علاقے پر پاکستان اور ہندوستان کی مشترکہ حکومت ہو۔اس فارمولے کو قصوری صاحب مسئلہ کشمیر کا بہت کامیاب حل قرار دیتے ہیں ۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس سارے عمل میں پاکستان کی کوئی ایک تجویز نہ مانی گئی اور پاکستان ہر نقطہ ہر معاہدہ کی خاطر اپنے موقف سے پیچھے ہٹتا چلا گیا ۔اگر مشرف اقتدار میں رہتے اور اس معاہدہ کی تمام نکات پر بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعہ اتفاق ہو بھی جاتا تو کیا پاکستان کے عوام اور پارلیمنٹ اسکو منظور کر لیتی ،ہر گز نہیں !

ای پیپر دی نیشن