یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست میں عوام کی خدمت اور کاموں پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنا زور سیاسی مخالفین کے خلاف بیان بازی پر لگایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کے لیے سیاست دانوں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور الزامات بس ہنسی ٹھٹھے کا سامان ہی بنتے ہیں اور انہیں اب سنجیدہ کوئی بھی نہیں سمجھتا۔ ایک جماعت اور اس سے وابستہ افراد جب حکومت میں ہوتے ہیں تو ان کے بیانات اور طرح کے ہوتے ہیں اور جب وہ حزبِ اختلاف میں چلے جاتے ہیں تو بیانات کا رخ دوسری طرف ہو جاتا ہے۔ بیان بازی اور الزام تراشی کے اس کھیل کا سب سے گھناؤنا پہلو یہ ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف بات کرتے ہوئے قومی اداروں کا نام بھی لیا جاتا ہے اور ان کے خلاف بیان بازی بھی کی جاتی ہے لیکن یہ سلسلہ صرف حزبِ اختلاف کی حد تک رہتا ہے، حکومت میں آنے کے بعد نہ تو کوئی اداروں کے خلاف بیان دیتا ہے اور نہ ہی ان کی معاملات میں اصلاح کی بات کرتا ہے۔
ان دنوں بھی سیاسی بیان بازیوں اور الزام تراشیوں کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے۔ اسی سلسلے میں وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید احمد نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کہیں نہیں جا رہے، وہ اپنی مدت پوری کریں گے۔ عمران خان کرپشن کے خلاف لڑتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے 20 دن نہیں بلکہ 20 سال کی پالیسیاں بناتے ہیں۔ کوئی عقل کا اندھا اگر یہ سوچ رہا ہے کہ کسی ایک شخص کی پالیسی ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہے۔ ادارے کی پالیسی ہوتی ہے، اداروں کے تھنک ٹینک طویل المدتی پالیسی بناتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے قائد نواز شریف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے واپس آنا ہے تو انہیں میں اپنی جیب سے ٹکٹ کی پیشکش کرتا ہوں،وہ واپس آنا چاہیں تو 24 گھنٹے میں ویزا دیں گے۔ نواز شریف بیماری کا بہانہ کر کے بیرون ملک گئے، ان کی صحت بالکل ٹھیک ہے اور وہ صحت مند ہیں کیونکہ انہوں نے کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا اور نہ ہی کہیں سے علاج کرایا ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ نواز شریف کے پاس اداروں کے خلاف باتیں کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے کہا ہمارا ہاتھ ہوگا اور ان کے گریبان ہوں گے۔ آپ خود کو دیکھیں، آپ جیسے چور ہمارے گریبانوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے، شہباز شریف کے خلاف کرپشن کے جتنے الزامات ہیں کسی پر نہیں۔
ادھر، مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے شیخ رشید کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف ابھی آئے نہیں اور وزراء بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ لیگی قائد کی واپسی کا خوف انہیں سونے نہیں دے رہا، جو کرنا ہے کر لیں، اب تو جانا ہی پڑے گا اور عوام جن کا پتا کاٹ چکے وہ اپنے ٹکٹ کی فکر کریں۔ نالائقی، نااہلی اور کرپشن کا سونامی لانے والوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ نیازی سمیت ہر وزیر اور ترجمان کا بیان اور پریس کانفرنس صرف نواز شریف، شہباز شریف تک محدود ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی بطور جماعت قانوناً ختم ہو چکی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نوازشریف اور شہباز شریف کے خلاف بس الزام ہی ہیں، ثبوت کوئی نہیں۔ بوکھلائے ہوئے عمران نیازی نے گھبراہٹ میں پارٹی آئین ہی ختم کر دیا۔ اسی طرح، سابق گورنر سندھ اور نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادارے کی کوئی 20 سال کی پالیسی نہیں ہوتی۔ عمران خان اور شیخ رشید کو سمجھ آ گئی ہے کہ عوام کا ووٹ کس طرف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سچ سامنے آئے جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ معاملے کو پیچیدہ بنایاجائے۔ سابق گورنر سندھ نے مزید کہا کہ جتنی تضحیک شیخ رشید اداروں کی کرتے ہیں اتنی کوئی نہیں کرتا۔ دریں اثناء سابق وزیر داخلہ اور رہنما پیپلز پارٹی رحمان ملک نے اسلام آباد ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ حکومتی وزراء کے بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہیں طوفان اٹھا ہے اور دال میں کچھ کالا ہے۔ پاکستان نون لیگ کے قائد نواز شریف کا ملک ہے انہیں کوئی پاکستان آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ میاں صاحب کے آنے پر حکومت رہے گی یا جائے گی؟
حکومت میں آنے سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے عوام سے بہت سے وعدے کیے تھے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی وعدہ وفا نہیں ہوا۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو مزید پریشان حال کردیا ہے۔ اندریں حالات، محض بیانات اور الزامات سے عوام کے دلوں میں جگہ نہیں بنائی جاسکتی اور یہ بات خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج سے بھی واضح ہوچکی ہے۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ سہی لیکن حکومتی بزرجمہران کو اس وقت اپنی ساری توجہ مہنگائی اور بے روزگاری کو قابو کرنے پر لگانی چاہیے کیونکہ ان کی مدتِ اقتدار کا تقریباً 70 فیصد حصہ گزر چکا ہے اور اس دوران ایسی کوئی بھی پالیسی اختیار نہیں کی گئی جس سے عوام ان سے خوش ہوں ۔ باقی ماندہ مدت میں اگر حکومت عوام کو کچھ حقیقی ریلیف دے تو ممکن ہے کہ عوام کی نظر میں اس کی ساکھ کچھ بہتر ہو جائے۔
شیخ رشید احمد کی بیان بازی اور حزبِ اختلاف کا جواب
Dec 28, 2021