گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کی 14 ویں برسی میں ہزاروں افراد کی شرکت
گزشتہ روز گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں بے نظیر بھٹو کی 14ویں برسی پر حسب روایت بڑا اجتماع ہوا جس میں مقررین نے ان کی سیاست اور ملکی خدمات پر روشنی ڈالی۔ اس اجتماع میں مرحومہ کے شوہر آصف علی زرداری، فرزند بلاول ، دختر آصفہ اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت ہمیشہ شرکت کرتی اور انہیں پرجوش خراج عقیدت پیش کرتی ہے مگر اس کے علاوہ رانی بی بی کے چاہنے والے ہزاروں افراد ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ بلاول نے اپنی والدہ کی برسی پر ان کے ساتھ اپنے بچپن کی تصویریں پوسٹ کیں اور سلام بے نظیر بھٹو کا پیغام بھی دیا۔ یہ لوگوں کی بے نظیر اور بھٹو سے لازوال محبت کا ثبوت ہے کہ اب تک بھٹو اور بے نظیر کے نام پر پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ سندھ کے غریبوں کو صرف بھٹو اور بے نظیر کی تصویر کے ساتھ ان کی پارٹی کا ترنگا ہی بھاتا ہے۔ بہت سی جماعتوں نے سندھ میں زور لگایا مگر پہلے تلوار اور اب تیر کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ پی پی اب زرداری خاندان کی جماعت بن چکی ہے۔جہاں پہلے نمبر پر زرداری دوسرے نمبر پر بلاول اور تیسرے نمبر پر آصفہ براجمان ہیں۔ سندھ میں کئی دہائیوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ بی بی کی شہادت کے بعد وفاق میں بھی پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی مگر افسوس 14 برس گزرنے کے باوجود بے نظیر کے قاتل بے نقاب نہیں ہو سکے۔ اس کی وجہ کوئی نہیں بتاتا۔
بے شمار پرانے جیالے تو برملا ابھی تک کہتے پھرتے ہیں کہ
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
٭٭٭٭
جماعت اسلامی کا مارچ ۔ مہنگائی کا جنازہ نکالا گیا
باقی سیاسی جماعتیں ابھی تک آئے گا۔ جیل جائے گا کی تکرار میں مصروف ہیں جبکہ الیکشن کاسال سر پر آ گیا ہے۔ مگر افسوس تمام بڑی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کے سوا اورکچھ نہیں کررہی ہیں۔ ان حالات میںجماعت اسلامی مختلف شہروں میں مہنگائی کے خلاف جلوس نکال کر خود کو عوام کا سوفیصد سچا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ بھی غنیمت ہے ورنہ آوے آوے جاوے جاوے کے نعروں کی گونج میں عوامی مسائل دب سے گئے ہیں۔ کوئی آتا ہے یا کوئی جاتاہے اس سے مہنگائی اور بے روزگاری کا مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ یہاں تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا والی بات ہے۔ نہ اپوزیشن کے ہاتھ میں کچھ ہے نہ حکومت کے پاس کچھ ہے کیونکہ مہنگائی اور بے روزگاری کے ذمہ دار دونوں طرف ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال میں جماعت اسلامی نے مہنگائی کے خلاف جس جہاد کا اعلان کیا ہے اس میں لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہو کر اپنے دل کا غبار نکال رہی ہے۔ گزشتہ روز جماعت اسلامی کے زیر اہتمام لاہور میں مہنگائی کا جنازہ نکالا گیا جس میں اسکے درجنوں کفن پوش کارکن اور خواتین بھی شریک تھیں۔ اس کے علاوہ جنازے کے ساتھ کئی خالی دیگیں بھی رکھی گئی تھیں جو شاید غریبوں، گھروں میں پڑے خالی برتنوں کی علامت تھیں۔ یا مردہ دفانے کے بعد دیگیں کھولنے کی۔ جماعت اسلامی کے بعد اگر دیگر بڑی پارٹیاں بھی سیاست کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل پر زبان کھولیں باہر نکلیں تو لوگ خودبخود ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ کیونکہ یہ انہی کا مسئلہ ہے۔ ورنہ کون آتا ہے کون جاتا ہے عوام کو اتنی دلچسپی نہیں جتنی خالی پیٹ یعنی بھوک سے ہے۔
٭٭٭٭
راجن پور میں ڈاکوئوں نے مغوی کو چھوڑ دیا‘ بدلے میں پولیس نے 45 سہولت کار رہا کر دیئے
یہ ہوتا ہے لین دین۔ کیا خوب نظام چل رہا ہے ہمارے ملک میں جہاں چور بھی خوش اور کوتوال بھی خوش ہے۔ ان دونوں کے باہمی حسن اتفاق سے پورا ملک خوش و خرم ہے۔ قصہ کوتاہ ایک ماہ قبل راجن پور کے علاقے سے ڈاکو ایک تاجر اٹھا کر لے گئے۔ اس کے بارے میں ظاہر بات ہے تاوان طلب کیا ہوگا۔ آخر کسی شہر سے یا گائوں سے مفت میں تو بندہ اغوا نہیں کیا جا سکتا۔ سہولت کاروں کے تعاون کے بنا یہ ممکن ہی نہیں۔ ورنہ جنگل میں چھپے ڈاکوئوں کو کیا معلوم کون سا کتنا مالدار ہے۔ یہ سب رپورٹیں سہولت کاروں کی بدولت حاصل ہوتی ہیں تو پھر جا کر ڈاکو واردات میںکامیاب ہوتے ہیں۔ اب اس تاجر چندر لعل کی قسمت اچھی ہے یا اس کے گھر والے تگڑے تھے کہ بات اوپر تک پہنچی تو پولیس کو بادل نخواستہ ایکشن لینا پڑا۔ ورنہ پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی بڑے پھڈے میں نہ پڑے خاص طورپر اس پھڈے میں جہاں سے کچھ منافع ملنے کی امید ہو۔ راجن پور کے کچے کے علاقے میں کئی بار پولیس نے ڈاکوئوںکے خلاف ایکشن لیا۔ رینجرز نے بھی مدد کی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا۔چند عدد بیمار‘ لاغر‘ بوڑھے اور گھریلو خواتین کے کوئی ہاتھ نہ آیا۔ جنگل میں چیک پوسٹیں قائم ہوئیں مگر وارداتیں آج بھی جاری ہیں۔ اب 45 سہولت کاروں کی گرفتاری نے ڈاکوئوں میں تھرتھلی مچا دی۔ اس طرح تو ان کا کاروبار ٹھپ ہونے لگا تھا۔ انہوں نے خدا جانے کچھ لیا یا نہیں مگر مغوی کو چھوڑ دیا۔ اس کے جواب میں حیرت کی بات ہے پولیس نے45 سہولت کار چھوڑ دیئے۔ یہ تو بالکل کچھ لو کچھ دو والا معاملہ ہے۔ پولیس اور ڈاکوئوں نے ایک ہاتھ لو ایک ہاتھ دو کے تحت اپنے اپنے بندے چھڑا لئے۔جب چور اور کوتوال دونوں راضی ہوں تو کیا کرے گا قاضی۔
٭٭٭٭٭
بھارتی اداکار سلمان خان کوسانپ نے ڈس لیا
یہ ضرور کوئی مسلم دشمن زہریلا سانپ ہو گا جس نے چن کر بھارتی فلمی انڈسٹری کے بڑے مسلم اداکاروں میں سے ایک سلمان خان کو ڈس لیا ہے۔ اس موذی سانپ کو کوئی اور ہندو اداکار کیوں نہیں ملا ڈسنے کے لیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہا پسند نظریات کا مودی کی مسلم دشمن پالیسیوں کااثر اب موذی جانوروں پر بھی ہونے لگا ہے۔ وہ بھی اب تاک تاک کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ شاید اسی کا نام ہندو توا ہے کہ جہاں کوئی غیر ہندو نظر آئے اسے مار دو۔ بھارت میںموجود اسلام دشمن تنظیموں کے اجتماعات میں اب کھلم کھلا مسلمانوں، اذان ، مساجد ، مقابر گرانے بند کرنے کے حوالے سے جوکچھ کیا جا رہا ہے اس سے تو لگتا ہے اب یہ دال اور سبزی کھانے والے دو پائے اچھل اچھل کر مسلمانوں پر حملہ آورہورہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی زبانیںزہر اگلتی ہیں اوریہ موذی سانپ کاٹ کر اپنا زہر کسی کے جسم میں منتقل کرتے ہیں۔اب شکر ہے کہ سانپ زیادہ زہریلا نہیں تھا یعنی بی جے پی کا پکا کارکن نہیں تھا یوں سلمان خان کی جان بچ گئی۔ امید ہے اب سلمان خان اس قسم کے موذی سانپوں اور انسانوںسے دور ہی رہیں گے کیونکہ بقول شاعر ’’یہ انسانوں سے انسانوں کو ڈسوانے کا موسم ہے‘‘ اس لیے بہت زیادہ احتیاط ضروری ہے۔