سسٹم کے اندر رہ کر آئینی جمہوری طریقے سے منتخب ایوانوں یا حکومت میں کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس پر اعتراض کی بھلا کیا گنجائش نکل پائے گی۔ ہائوس میں وزیراعظم‘ سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر کا منتخب ہونا‘ وزیراعظم کا اعتماد کا ووٹ لینا اور اسی طرح وزیراعظم‘ چیئرمین سینٹ‘ ڈپٹی چیئرمین سینٹ‘ سپیکر و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کا پیش ہونا آئین کے تحت وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ ہائوس میں جو پارٹی یا اتحاد اپنی عددی اکثریت ثابت کر دیتا ہے‘ اقتدار کی مسند پر بیٹھنا اس کا آئینی حق بن جاتا ہے جبکہ آئین پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی میعاد پانچ سال مقرر ہے‘ اسمبلیوں نے یہ آئینی مدت بہرصورت پوری کرنا ہوتی ہے جبکہ اس عرصے میں حکومت کس کی بننی اور قائم رہنی ہے اس کا انحصار عددی اکثریت پر ہوتا ہے کہ وہ کسے حاصل ہے۔ اسی تناظر میں ہماری پارلیمانی تاریخ میں حکمران جماعت کیلئے ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والے مناظر بنتے اور نظر آتے رہے ہیں تاہم کسی حکومت کے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے تبدیل ہونے کے مناظر خال خال ہی نظر آئے ہیں بطور خاص عدم اعتماد کے ذریعے حکمران جماعت کے اپوزیشن جماعت میں تبدیل ہونے کے مناظر تو آج تک روبہ عمل نہیں ہو پائے۔ حکمران جماعت کے اندر قائد ایوان کی تبدیلی کے مناظر تو ضرور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں دیکھے گئے جیسے قومی اسمبلی میں میرظفراللہ جمالی کی جگہ اسی حکمران پارٹی کے چودھری شجاعت حسین اور پھر چودھری شجاعت حسین کی جگہ انکی کابینہ کے وزیر خزانہ شوکت عزیز کا وزیراعظم منتخب ہونا ہماری پارلیمانی تاریخ کا حصہ بنا ہے۔ پھر پیپلزپارٹی کے دور میں چاہے عدالتی حکم کی بنیاد پر ہی سہی مگر یوسف رضا گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف اسی پارٹی کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور 2013ء والی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کی رونما ہونیوالی تبدیلی تو کوئی دور کی بات نہیں۔ میاں نوازشریف سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت وزارت عظمیٰ اور اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار پائے تو حکمران مسلم لیگ (ن) نے انکی جگہ شاہد خاقان عباسی کو اسمبلی کے ایوان میں وزیراعظم منتخب کرالیا۔ پنجاب اسمبلی میں ایسا ہی منظر 1994ء میں بنا تھا جب حکمران مسلم لیگ (ن) کے سپیکر میاں منظور احمد وٹو نے اپنی ہی پارٹی کے وزیراعلیٰ غلام حیدروائیں کیخلاف پارٹی کے اندر بغاوت کرائی اور انہیں ہائوس کے اندر عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے وزارت اعلیٰ سے فارغ کراکے خود وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے اور سعیداحمد منہیس کو اپنی جگہ سپیکر پنجاب اسمبلی منتخب کرایا۔
ہائوس کے اندر سے ہونیوالی ایسی تبدیلیوں کے طریق کار پر چاہے آپ ناپسندیدگی کا اظہار کریں مگر اس تبدیلی کی آئینی حیثیت کا کوئی سوال نہ کبھی اٹھا ہے نہ اٹھ سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہماری سیاسی تاریخ میں منتخب ایوانوں سے بالا بالا حکومتی تبدیلیاں صرف ماورائے آئین اقدامات کے تحت رونما ہوتی رہی ہیں جن کے تحت منتخب اسمبلیوں ہی نہیں‘ آئین پاکستان کا گلا بھی گھونٹا جاتا رہا اور ان ماورائے آئین حکمرانوں کی میعاد بھی یہ اقدامات اٹھانے والوں کی منشاء ہی کے تابع رہی۔ ایسے اقدامات کی ستائش ہمارے سیاست دانوں کے صرف ان طبقات کی جانب سے کی جاتی رہی ہے جنہوں نے خود ایسے اقدامات کے نتیجہ میں قائم ہونیوالے اقتدار میں شیرینی حاصل کی ہو اور اس غرض سے ہی ماورائے آئین اقتدار والوں کو اپنا کندھا فراہم کیا ہو۔
ہمارے آج کے سیاست دانوں کی اکثریت نے تو ماورائے آئین اقتدار کے ادوار میں ہی سیاسی نشوونما پائی ہے جن میں ذوالفقار علی بھٹو سے میاں نوازشریف تک جن بھی سیاست دانوں نے اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا راستہ اختیار کرکے اپنی سیاست چمکائی اور مقبول عوامی قائد والا طرۂ امتیاز حاصل کیا وہ ماورائے آئین اقتدار کی چھتری کے نیچے ہی اور انہی کے گملوں میں نشوونما پاتے رہے۔ موجودہ حکومتی لیڈر عمران خان نے تو سیاسی اور عسکری قیادتوں کے ایک صفحے پر ہونے والا طرۂ امتیاز حاصل کیا ہے اس لئے اس دور حکمرانی کو قومی مفادات میں مفاہمت والی حکومت کا نام دیا جاتا ہے اور اس تناظر میں قوم کو یہی توقعات وابستہ ہوئی تھیں کہ ملکی سلامتی و قومی خودمختاری کے تحفظ اور معیشت و معاشرت کے گھمبیر ہوتے روٹی روزگار کے مسائل موجودہ دور میں خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہوتے رہیں گے۔ ہماری معیشت مضبوط اور عوام خوشحال ہو جائینگے اور پارلیمانی جمہوری نظام اتنا مستحکم ہو جائیگا کہ کہیں ماورائے آئین اقدام کی کوئی سوچ پیدا ہوگی نہ کسی کو اسکی جرأت ہو پائے گی اور نہ ہی کوئی قومی سیاسی لیڈر ماضی کی طرح خود کو ماورائے آئین اقدام کی بیساکھی بنائے گا۔
اگر ایک صفحے والی اتنی ہم آہنگی کے باوجود عوام کے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل ماضی سے بھی زیادہ گھمبیر ہوئے ہیں‘ ہماری قومی معیشت کو ماضی جیسی شرائط سے بھی زیادہ سخت شرائط کے ساتھ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا گیا ہے جس کی ہر شرط مانتے ہوئے انتہاء درجے کی غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں عوام کا کچومر نکالا گیا ہے اور منتخب ایوانوں کے اندر آئین و قانون سازی کے مروجہ طریق کار کو بٹہ لگایا گیا ہے تو عوامی اعتماد کو تو ایک صفحے کے مثالی جھولے جھولنے والوں نے خود بٹہ لگایا ہے۔ پھر عوام ضمنی انتخابات اور خیبر پی کے جیسے بلدیاتی انتخابات کے نتائج والا ردعمل نہ دکھاتے تو کیا منتخب ایوانوں کی دیواروں پر اپنا سر ٹکراتے۔
اگر اس فضا میں اب اپوزیشن بنچوں کو منتخب ایوانوں کے اندر عدم اعتماد کے ذریعے تبدیلی لانے کی فضا سازگار نظر آرہی ہے تو انکی جانب سے ایسے اشارے حکومت کیخلاف کوئی غیرآئینی سازش تو قرار نہیں پائے گی۔ البتہ ہماری پارلیمانی تاریخ میں یہ واقعہ ضرور رونما ہو سکتا ہے کہ اسمبلیوں کی پانچ سال کی آئینی میعاد کے اندر ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو اقتدار منتقل ہو جائے۔ بصورت دیگر حکمران پارٹی کے اندر سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے قائد ایوان کی تبدیلی کی فضا تو بہرصورت سازگار نظر آرہی ہے۔
اس کیلئے لندن میں بیٹھے سزا یافتہ مجرم اور تین بار منتخب ہونیوالے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کوئی کردار ادا کر رہے ہیں یا نہیں اور انکی ملک واپسی کی راہ ہموار ہو رہی ہے یا نہیں‘ فی الوقت یہ سب قیاس آرائیاں ہیں مگر وزیراعظم عمران خان نے خود ایسے بیانات دے دیئے ہیں کہ نوازشریف کے حوالے سے قیاس آرائیاں حقیقت کے قالب میں ڈھلتی نظر آنے لگی ہیں۔ جناب! وزیراعظم آپ ہیں‘ حکومت آپکی ہے تو پھر کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کے آپ کے اٹل فیصلے کی موجودگی میں کسی سزا یافتہ مجرم کو اپنی سزا سمیت ملک واپس آنے کی بھلا کیسے جرأت ہو سکتی ہے چہ جائیکہ وہ چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بھی جلووہ افروز ہو جائیں۔ قوم آپ کے اس بیان کو کس پیرائے میں جانچے کہ اگر سزا یافتہ مجرم کو چوتھی بار وزیراعظم بنانا ہے تو پھر تمام جیلوں کے دروازے کھول دیں‘ حضور ذرا اسکی وضاحت تو فرما دیجئے کہ آپ کا یہ پیغام کس کیلئے ہے اور آپ کس کو جیلوں کے دروازے کھولنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اگر ملک کی اعلیٰ عدلیہ میاں نوازشریف کی قید اور تاحیات نااہلی کی سزائوں کے اپنے فیصلہ پر مجرم کی اپیل پر نظرثانی کرتے ہوئے یہ سزائیں ختم کردیتی ہے تو وہ کیونکر قومی سیاست میں واپس آنے اور دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے کے مجاز نہیں ہونگے۔ اور اگر آئین و قانون کے پیرامیٹرز کے اندر حکومت کی تبدیلی کی فضا بنتی ہے تو اس میں سے جمہوریت کو گرانے کی سازش کیسے کشید کی جا سکے گی۔ آپ ایسی کسی تبدیلی کے راستے میں اپنی اچھی حکمرانی کے ذریعے رکاوٹ بنیں اور عوام کو انکے غربت‘ مہنگائی کے لاانتہاء مسائل میں حقیقی ریلیف دیکر ان کا اعتماد حاصل کریں تو آپ کیخلاف کوئی سازش پنپ سکتی ہے نہ کسی سازش سے آپ کو کوئی خطرہ لاحق ہونا چاہیے۔ مگر آپ تبدیلی کے آئینی‘ جمہوری راستوں پر چلنا کسی سازش سے تعبیر کرینگے تو پھر ماضی جیسا کوئی ماورائے آئین اقدام ہی ساری خلش اور اضطراب و انتشار کا علاج بنے گا۔ حضور! جس راستے سے قوم کو بہت دیر بعد اور بڑی مشکل سے خلاصی حاصل ہوئی ہے‘ اسے دوبارہ کھلوانے کا تردد نہ کریں۔ ہماری تاریخ شاید کسی نئے سیاہ باب کی متحمل نہیں ہو پائے گی۔