الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں: افسانے اور حقیقت

علاوہ ازیں، اس نظام کے تحت ووٹوں کی گنتی یا نتائج میں کوئی بھی ممکنہ ردوبدل متعلقہ مشین کے سسٹم سے ا رتباط یا اس میں دخل اندازی کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے جو کہ مجوزہ مشینوں میں سرے سے نا ممکن ہے۔ دوسری طرف الیکشن ایکٹ میں ہونے والی ترمیم میں بھی یہ واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ ہر مشین اپنی جگہ پر سٹینڈ الون یعنی کہ ایک مکمل وحدت ہوگی اور ان مشینوں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہوگا یعنی یہ مشینیں انٹرنیٹ حتیٰ کہ بلوٹوتھ یا وائی فائی وغیرہ سے بھی کسی طور منسلک نہیں ہوں گی۔ اس وقت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ان مشینوں کے غلط استعمال سے محفوظ رہنے کے لیے آئی ٹی کے کئی اقدامات اختیار کررکھے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت میں استعمال ہونے والی مشینوں میں اکٹھے ہونے والے اعدادوشمار تک رسائی کے لیے کسی بھی ممکنہ کوشش کی نشاندہی کے لیے ایک مؤثر سسٹم تیار کررکھا ہے۔ یہ سسٹم کسی بھی مداخلت کی صورت میں متعلقہ مشین کو فوری طور پر ناکارہ بنا دیتا ہے۔ ان مشینوں کا تمام تر سافٹ ویئر ایک ایسی چپ میں محفوظ کیا گیا ہے جسے آئی ٹی کی زبان میں ون ٹائم پروگرام ایبل چپ کہا جاتا ہے۔ آئی ٹی کا ایک عام طالب علم بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اس طرح کی چپ کے سافٹ ویئر میں کسی طرح کی گڑبڑ یا دخل اندازی ممکن نہیں ہوتی۔ بھارت میں اس ٹیکنالوجی کے اجراء کے بعد سے اب تک 113 کروڑ ووٹراپنا حق رائے دہی استعمال کرچکے ہیں اور اس دوران ووٹنگ کے حوالے سے صرف 25 شکایات موصول ہوئیں جو جانچ پڑتا ل کے بعد تمام کی تمام غلط ثابت ہوئیں۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ الیکٹرانک مشینیں انتخابی دھاندلی کے سدباب کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔ یہ خیال حقیقت پر مبنی نہیں۔ بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے جائزے کے مطابق، بھارت میں ان مشینوں کے استعمال سے نہ صرف انتخابی ہیراپھیری اور دھاندلی میں کمی آئی ہے اور انتخابات کے دوران تشدد کے واقعات کم ہوئے بلکہ معاشرے کے کمزور طبقات خصوصاً خواتین کی ووٹوں کی تعداد میں بھی قابل قدر اضافہ ہوا۔ اپنے غیرجانبدارانہ تبصروں کے لیے معروف پاکستانی الیکشن ایکسپرٹ سرور باری نے بجا طور پرلکھا ہے کہ الیکٹرانک مشینوں کے استعمال سے انتخابات میں روا رکھنے جانے والے ان پس پردہ ہتھکنڈوں کا قلع قمع ہوسکے گا جن پر ہماری سیاسی جماعتیں عرصہ دراز سے انحصار کیے چلی آتی ہیں۔ ان ہتھکنڈوں میں جعلی ووٹوں سے بکسوں کی بھرائی، پولنگ ایجنٹوں کی چال بازیاں، غیرسیل شدہ پولنگ بیگز کے ذریعے بعداز انتخابات نتائج میں ردوبدل اور تاخیر کے ساتھ نتائج کا اعلان شامل ہیں۔ آخر میں اس الزام کی حقیقت پر بھی ایک نظر ضروری ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے اجراء کا منصوبہ نیک نیتی پر مبنی نہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی یہ تصور پیش کرنیوالی پہلی سیاسی جماعت نہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا تجربہ سب سے پہلے 2011 ء میں ایک بلدیاتی انتخاب اور پھر 2017 ء میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی انتخاب میں کیا گیا تھا اور اس وقت بالترتیب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (نواز) اقتدار میں تھیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سٹریٹیجک پلان 2019-23ء میں بھی اس امر کا عہد کیا گیا تھا کہ اس طرح کے پائلٹ انتخابات کے مزید تجربات کیے جائیں گے (مثلاً الیکٹرانک ووٹنگ مشین، بائیومیٹرک ویریفیکیشن مشین اور اورسیز ووٹنگ مشین کے سسٹم کا اجراء وغیرہ) تاکہ ان تجربات کی روشنی میں ایسی مطالعاتی رپورٹیں تیار کی جاسکیں جو پارلیمنٹ اور دوسرے متعلقہ اداروں کے روبرو قانونی اور عملی غوروخوض  کے لیے پیش کی جاسکیں۔ سٹریٹیجک پلان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ رپورٹیں دسمبر2021 ء تک مکمل کرکے پیش کردی جائیں گی۔ سچ پوچھیں تو پاکستان تحریک انصاف پہلے سے موجود ایک اصلاحی عمل کو آگے بڑھانے اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔مذکورہ بالا تمام حقائق زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں، وقت آچکا ہے کہ ہم ایک ایسے ازکاررفتہ اور فرسودہ انتخابی طریقہ کار کو خیرباد کہہ دیں جس کا دامن غیرقانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کے فروغ کی آماجگاہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگرچہ اس تبدیلی کا سہرا پاکستان تحریک انصاف کے سر ہے لیکن آخر کار اس سے کسی ایک جماعت کی بجائے 13کروڑ سے زیادہ پاکستانی ووٹر فائدہ اٹھائیں گے۔
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پے اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
…………………… (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن