کیا ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے؟


15سال گزرگئے۔اس خلش کو مگر آج تک دل سے نکال نہیں پایا کہ ’’پاکستان کی دوبار رہی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اب اس دنیا میں نہیں رہیں‘‘والے فقرے کے ذریعے میں نے کسی پاکستانی میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے نہیں بلکہ ایک بھارتی چینل کے توسط المناک خبر بریک کی تھی۔میری جانب سے یہ اندوہناک حقیقت عیاں کرنے سے چند ہی لمحے قبل تک عوام کو مطمئن رکھنے کے لئے جبکہ تسلی دی جارہی تھی کہ راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں انہیں ہنگامی بنیادوں پر بچانے کی کاوشیں جاری ہیں۔
پاکستانی سیاست کے لئے طویل المدت اضطراب بھڑکانے والی یہ خبر میں اپنے ہی ملک کے کسی چینل پر اس لئے بریک نہیں کر پایا کیونکہ چند ساتھیوں سمیت جنرل مشرف نے مجھے بین کررکھا تھا۔صحافت سے جبری بدری کے ان دنوں میں فقط عالمی میڈیا ہی مجھ سے رابطہ کرسکتا تھا۔اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لئے میں ان کے اٹھائے سوالات کا جواب فراہم کرنے کو مجبور تھا۔
محترمہ کی شہادت کے چار ماہ بعد میرا ٹی وی شو بحال ہوگیا۔ناظرین کی بہت خواہش رہی کہ میں ان کی شہادت کو یقینی بنانے والی سازش کا تعاقب کروں۔ بعدازاں کالم نویسی بھی شروع کردی تو محترمہ کی ہر برسی کے دن قارئین مجھ سے ’’اصل کہانی‘‘ بیان کرنے کی توقع باندھتے۔ اپنی محدودات تاہم میں دریافت کرچکا تھا۔کامل بزدلوں کی طرح کنی کتراتا رہا ہوں۔آج بھی واجب سوالات اٹھانے کی ہمت سے محروم ہوں۔
سچ بیان کرنے کے ناقابل بناتے موسم میں ٹی وی سکرینوں پر چھائے چند ذہن ساز اور مقبول عام اینکر ہر برس محترمہ کی برسی کے دن نت نئے ’’انکشافات‘‘ کے ذریعے سازشی کہانیاں پھیلاتے رہے ہیں۔مقصد ان کہانیوں کا لوگوں کو یہ سوچنے کو مائل کرنا تھاکہ 27دسمبر 2007ء کے روز محترمہ کی سکیورٹی کے انتظامات مناسب نہیں تھے۔اس کے ذمہ دار چند لوگ بلکہ حملہ آوروں کے سہولت کار بن چکے تھے۔’’سہولت کاری‘‘ کی تہمت والا کیچڑ ان افراد پر بھی اچھالنے کی کوشش ہوئی جو ان کے بہیمانہ قتل کے بعد اہم ترین حکومتی اداروں پر فائز ہوئے تھے۔ ہمارے دلوں میں موجود غیبت کی ہوس کو تسکین پہنچانے والی یہ کہانیاں ہمیں اجتماعی طورپر اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے بازرکھتی رہیں کہ دہشت گردی کی جو وحشت پاکستان پر کئی برسوں تک مسلط رہی وہ 1980ء کی دہائی سے ریاستی پشت پناہی کی بدولت پھیلائے بیانیے کا فطری نتیجہ تھیں۔ آج بھی ہم اس بیانیے کے بنیادی خدوخال واسباب کے بھرپور ادراک میں ناکام ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہوئے چند واقعات بلکہ دہشت گردی کی ایک نئی لہر کے امکانات کی نشان دہی کررہے ہیں۔پاکستان میں قائم امریکی سفارت خانے نے اپنی ویب سائٹ پر متنبہ کیا کہ اسلام آباد کا ایک مشہور ہوٹل خود کش حملے کی زد میں آسکتا ہے۔ وہاں جانے سے گریز کی ایڈوائس جاری ہوئی۔ بعدازاں برطانیہ اور حتیٰ کہ سعودی عرب کا سفارخانہ بھی اپنے شہریوں سے اب احتیاط کا تقاضہ کررہا ہے۔ہمارا روایتی اور سوشل میڈیا لیکن اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مصروف ہے کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں۔تحلیل کو اب یقینی دکھانے کی کاوش بھی جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں آئندہ برس کے ’’مارچ اپریل‘‘ میں ملک بھر میں نئے انتخابات کی امید بھی دلائی جارہی ہے۔
حکومت مخالف سیاستدانوں اور صحافیوں کا ایک گروہ نئے انتخابات کے تقاضے کے ساتھ پاکستان کو ’’دیوالیہ‘‘ ہوتے بھی دیکھ رہا ہے۔ سفاکی سے ’’دیوالیہ-دیوالیہ‘‘ پکارتے ’’ذہن ساز‘‘ لوگوں کو مگر یہ بتانے سے گریز کررہے ہیں کہ پاکستان خدانخواستہ اگر واقعتا دیوالیہ ہوگیا تو کسی بھی سیاستدان کے پلے کچھ نہیں آئے گا۔سیاستدانوں کے اجتماعی نقصان کی بابت اگرچہ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی ہرگز پریشا ن نہیں ہوں گے۔اس امر کو نگاہ میں رکھنا مگر لازمی ہے کہ ’’دیوالیہ‘‘ پاکستان کے ریاستی نظام کو بھی زلزلے کی صورت اپنی جکڑ میں لے سکتا ہے۔ہیجان بھڑکانا مگر ہماری گزشتہ کئی برسوں سے کلیدی جبلت اختیار کرچکا ہے۔
پاکستان کے معاشی حقائق یقینا امید بھرے نہیں رہے۔’’دیوالیہ‘‘ ہونے سے بچنا مگر اب بھی ممکن ہے۔ جلد یابدیر ہمیں اس امر کو یقینی بنانے کے لئے آئی ایم ایف کے روبرو سرنگوں ہونا پڑے گا۔اسحاق ڈار صاحب اس ضمن میں مزید ’’اڑی‘‘ دکھانہیں سکتے۔ منت ترلوں کی بدولت آئی ایم ایف سے کچھ رعایتیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔بالآخر اس معاہدے پر ہر صورت عملدرآمد کرنا ہی پڑے گا جو 2019ء کا بجٹ تیار کرنے سے قبل عمران حکومت کو مستعاردئیے ڈاکٹرحفیظ شیخ نے آئی ایم ایف سے طے کیا تھا۔ مذکورہ معاہدے کی سیاسی قیمت ناقابل برداشت ہوئی تو سابق وزیر اعظم نے مارچ 2021ء میں حفیظ شیخ کو فارغ کردیا۔ ان کی جگہ شوکت ترین آئے۔بینکاری سے سیاست میں آئے ترین صاحب نے نہایت رعونت سے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے ہوئے معاہدے سے گریز کی راہیں تلاش کرنا شروع کردیں۔سابق حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج ان کی ’’خودمختاری‘‘ کو تقویت پہنچانے کے لئے اعدادوشمار کے انبارکے ذریعے یہ ثابت کرنا شروع ہوگئی کہ پاکستان میں خوش حالی آنہیں رہی بلکہ آچکی ہے۔نئی کاروں اور موٹرسائیکلوں کو ریکارڈ سطح پر خریدا گیا ہے۔مہنگے ریستورانوں میں بیٹھنے کی جگہ حاصل کرنے کے لئے گھنٹوں انتظارکرنا پڑرہا ہے۔
معاشی حقائق سے ہمیں غافل رکھنے کواڑایایہ خوش کن غبارہ مگر جلد ہی پھٹ گیا۔عمران مخالف جماعتوں سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ مذکورہ غبارہ پھٹ جانے کے مہلک اثرات کی ذمہ داری اپنے سرلینے کو دل وجان سے آمادہ ہوگئے۔ان کی بے بسی پراسی باعث کم از کم میرے دل میں رحم کے جذبات ہرگز نہیں امڈتے۔ ذاتی جذبات سے قطع نظر اگرچہ حقیقت یہ بھی ہے کہ نئے انتخابات بھی موجودہ حالات میں امید بھرا موسم لوٹا نہیں سکتے۔معیشت کی بحالی فی الوقت موجودہ حکومت ہی کی نہیں ریاست کے دائمی اداروں کی بھی اولین ترجیح بن چکی ہے۔ اس کی جانب ہم مگر توجہ ہی نہیں دے رہے۔

ای پیپر دی نیشن