پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا تھا جو پانی کے بڑے بڑے ذخائر رکھتے ہیں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ پاکستان کے یہ ذخائر اب تیزی سے اپنے خاتمے کی طرف جارہے ہیں‘ اسی لئے اِرسا( انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے کہ اگر پانی کے ذخائر کا مناسب بندوبست نہ کیا گیا تو کئی ممالک کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ہمارے آبی ماہرین نے تو یہ خدشات بہت پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں کہ 2025ءتک ملک میں پانی کا شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے۔پاکستان دنیا کے ان 36 ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کا بحران صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جبکہ اس فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میںسالانہ پانی کی دستیابی فی شخص (1 ہزار کیوبک) میٹر سے بھی کم سطح پر آچکی ہے۔پاکستان میں پانی کے بحران میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں ، ان میں آبادی میں تیزی سے ہونیوالا اضافہ ، زراعت ، پانی کے نظام کی بد انتظامی اور دنیا بھر میں تیزی سے رونما ہونیوالی موسمیاتی تبدیلی ان عوامل میں شامل ہیں۔پاکستانی سیاست کا اگر گزشتہ پچاس سالہ جائزہ لیا جائے تو وہ ملک و قوم کے بجائے ذاتی مفاداتی کے گرد گھومتی رہی ہے۔ اس سیاست نے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ آبی ماہرین کے بارہا انتباہ کے باوجود کسی بھی حکومت نے پانی کے اس متوقع بحران سے بچاﺅ کیلئے نہ کوئی پالیسی مرتب کی اور نہ ہی ملک میں ڈیمز اور پانی ذخیرہ کرنے کیلئے پونڈز بنائے گئے اور نہ ہی گزشتہ پچاس سال کے دوران ملک میں کوئی قابل ذکر آبی منصوبہ تیار نہیں کیا گیا۔ رہی سہی کسر ہمارے ازلی دشمن بھارت نے ہماری جانب آنیوالے دریاﺅں پر چھوٹے بڑے ڈیمز بنا کر پوری کر دی۔ حالانکہ 1960 میںعالمی بنک کی ثالثی سے پاکستان اور بھارت کے مابین طے پائے گئے سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے دریاو¿ں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیاجو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ لیکن بھارت نے اس معاہدے کی کبھی پاسداری نہیں کی اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی جانب آنیوالے دریاﺅں پر نہ صرف بڑے ڈیمز بنا کر ان دریاﺅں میں پانی کی مقدار کو انتہائی کم کر دیا۔ ان ڈیمز کی تعمیر سے بھارت پاکستان کا 95 فیصد پانی روکنے میں کامیاب ہو گیا اوراب وہ ان دونوں ڈیمز کو پاکستان کیخلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ مون سون کے موسم میں ان کا فالتو پانی پاکستان کی جانب چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب میں ڈبو دیتا ہے جبکہ دوسرے موسموں میں پاکستان کا پانی روک کر اسے بے آب و گیاہ بنا دیتا ہے۔
کالاباغ پاکستان میں پانی کا سب سے بڑا وسیلہ تصور کیا جاتا ہے‘ اس مقام پر ڈیم کی تعمیر اگر کرلی جاتی تو پاکستان کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا تھا جبکہ ملکی زراعت سمیت تمام صوبوں کی ضروریات کو اس ڈیم میں موجود پانی سے پورا کیا جا سکتا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان کی ترقی کے ضامن اس منصوبے کو کچھ بیرونی سازشوں نے پنپنے نہ دیاجس کیلئے ہمارے دشمن بھارت نے باقاعدہ پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں اور سہولت کاروں کی فنڈنگ کرکے اس منصوبے کی تعمیر کو عملی طور پر روک دیا جبکہ ان عناصر کو یہ پراپیگنڈا کرنے پر اکسایا گیا کہ اس منصوبے کے خلاف صوبوں میں نفاق پیدا کیا جائے اور یہ شور مچایا جائے کہ اس منصوبے کی تعمیر سے سندھ اور بلوچستان پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم ہو جائیں گے۔ بھارت اپنی اس سازش میں کامیاب ہوا اور اس منصوبے کیخلاف صوبوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔ رہی سہی کسر ہمارے سیاست دانوں نے پوری کردی جنہوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے صوبوں میں اتفاق رائے پیدا نہ کرکے بھارت کے اس ایجنڈے کو تقویت پہنچائی اور اس طرح یہ منصوبہ مکمل طور پر سیاست کی نذر ہو گیا۔ اس وقت پاکستان کے ڈیموں میں پانی کی سطح انتہائی کم درجے پر چلی گئی۔ گزشتہ دنوں تربیلا ڈیم میں پانی کی کمی کی وجہ سے 17 پیداواری یونٹس میں سے 14 بند ہو ہوگئے جبکہ بجلی گھر کے تین پیداواری یونٹ کام کر رہے ہیں جن سے 325 میگاواٹ بجلی حاصل ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو آبی ذخائر کی کمی اب ہمارا قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ آبی ماہرین نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے باور کرایا ہے کہ 2025ءمیں پاکستان کو شدید کمی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اگر ہم نے اب بھی ہنگامی بنیادوں پر ڈیمز اور پونڈ تعمیر کرنے کی طرف توجہ نہیں دی تو مستقبل میں پاکستان صرف پانی سے ہی محروم نہیں ہوگا بلکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اندھیروں میں بھی ڈوب جائیگا جسے ہمارا ازلی دشمن بھارت اپنی سازشوں سے مزید گھمبیر بنا سکتا ہے۔