ہماری گھریلو اور سماجی زندگی میں مصیبتوں، پریشانیوں، اذیتوں اور بیماریوں وغیرہ کا امتحان اور آزمائش کے طور پر سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان پر صبر کرنے والوں کیلئے اللہ تعالی کی طرف سے آخرت کی راحت و سلامتی نصیب ہوئی ہے ۔ قرآن پاک اور حدیث میں ہمیں صبر کا دامن تھام لینے کا درس دیا گیا ہے۔ آپ صبر کی اہمیت کا اندازہ ہے اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر صبر سے کام لینے اور صبر کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے ۔
ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی میں بہت سے امتحانات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور ہمت کا مظاہرہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن سے ہی آزمائش کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل ہی آپکے والد محترم اس دنیا فانی سے رحلت فرما گئے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تقریبا پانچ برس کی ہوئی تو والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی سفر آخرت اختیار کر گئیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت و پرورش کی ذمہ داری آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کے ذمہ ہوئی جب آپ کی عمر مبارک آٹھ سال کی ہوئی تو دادا محترم کا بھی انتقال ہوگیا۔ مگر صبر مصطفے دیکھئے کہ کبھی اس بات کا گلہ شکوہ کسی سے نہ کیا کہ مجھے والد محترم ، والدہ ماجدہ کے سائے سے کیوں محروم رکھا گیا۔ یہ تو تھی بچپن کی آزمائش اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوانی اور اعلان نبوت کے بعد بے شمار تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اللہ تعالی کے حکم پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ فرمانے لگے اس پر اہل مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلم کھلا مخالف ہوگئے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر اور مجنوں ہونے کا پروپیگنڈا کیا گیا ۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستوں میں کانٹے بچھائے گئے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کی کوشش کی گئی۔ ان سب باتوں کے باجود کبھی ایسا نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے صبری کا مظاہرہ کیا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت میں کوئی فرق آیا ہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنی قوم کو صبر کی تلقین کی اور دعاﺅں ہی سے نوازا اگر میں ناچیز یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر کے واقعات کا ذکر کرنے بیٹھ جاﺅں تو مجھ سے بیان نہ ہو پائیں اتنے واقعات ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر و استقامات کے ساتھ کام لیا اور دین برحق کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔رضائے الٰہی کیلئے صبر کرنے کی بہت ہی زیادہ فضیلت ہے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 156,155 میں فرماتا ہے، ترجمہ: اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو وہ لوگ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں" سرکار دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی قیامت کے دن ہر مخلوق کو جمع فرمائے گا تو ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرےگا کہ فضیلت والے کہاں ہیں؟ کچھ لوگ کھڑے ہونگے اور جلدی جلدی جنت کی طرف چلنا شروع کردینگے فرشتے ان سے ملاقات کرکے دریافت کرینگے ۔ ہم تمہیں جنت کی طرف تیزی سے جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں تم کو ن لوگ ہو ؟ وہ کہیں گے کہ ہم فضیلت والے ہیں فرشتے کہیں گے تمہاری فضیلت کیا ہے؟ وہ لوگ کہیں گے '' ہم پر جب ظلم کیا جاتا ہے تو ہم صبر کرتے ہیں جب ہم سے برا سلوک کیا جاتا تو ہم در گزر کرتے تھے جب ہم سے جہالت کا برتاﺅ کیا جاتا تو ہم برداشت کرتے تھے۔ فرشتے کہیں گے '' جنت میں داخل ہوجاﺅ تو عمل کرنے والوں کا اجر بہت اچھا ہے پھر اعلان کرنیوالا یہ اعلان کرےگا کہ صبر کرنےوالے کہاں ہیں؟ کچھ لوگ کھڑے ہونگے اور جلدی جلدی جنت کی طرف چلنا شروع کردینگے۔ فرشتے ان سے ملاقات کرکے دریافت کرینگے ہم تمہیں جنت کی طرف تیزی سے جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں تم کون ہو؟ وہ کہیں گے ہم صبر کرنےوالے ہیں فرشتے پوچھیں گے کہ تمہارا صبر کیا تھا؟ وہ لوگ کہیں گے '' ہم اللہ تعالی کی اطاعت کرنے پر اور اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے سے صبر کیا کرتے تھے۔ فرشتے کہیں گے جنت میں داخل ہو جاﺅ کہ صبر کا عمل کرنے والوں کا اجر بہت زیادہ ہے۔آج ہماری دین سے دوری کی وجہ یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو جانتے ہی نہیں اور بے یقینی کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنا سب کچھ اس دنیا میں پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم اللہ تعالی کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق صبر سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے کیونکہ انسان معاشرے یا خاندان میں جس عہدے یا حیثیت پر ہے ضروری نہیں کہ وہ سب کچھ ویسا ہی ہورہا جیسا وہ چاہتا ہے ۔ جب کوئی کام انسان کی مرضی کے خلاف ہوجائے تو وہ غصہ میں آ جاتا ہے بعض اوقات ایسی حرکت ہوجاتی ہے جو اسکے دامن کو داغدار بنا دیتی ہے مگر کامیاب اس شخص کو گردانا جاتا ہے جس کی پریشانیوں کے دوسرے آ گاہ نہ ہوں وہ پریشانیوں کو بھی ہنس کر برداشت کرنا جانتا ہے ۔
یہ کام وہی کر سکتا ہے جو صبر کی دولت سے مالا مال ہو۔ اگر ہم خالق کائنات کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس دنیا میں صبر سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خود بخود ہی حل ہو جائینگے۔ جب کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو ہم اپنے رب کریم سے رجوع کریں اور صبر سے کام لیں تو یقینا اللہ تعالی کی مقدس ذات ہماری مدد کریگی۔ اور ہمیں صبر اور صدق دل سے اللہ تعالی کی عبادت دنیا اور آخرت میں کامیاب کرے گی۔ دوستو! یہ صبر کامیابی کا راز ہے ، آزمائش شرط ہے۔
صبر۔دنیا و آخرت میں کامیابی کا راز
Dec 28, 2022