قائداعظم: بیسویں صدی کے سب سے بڑے لیڈر


غلامی کتنا بڑا عذاب اور کتنی اذیت ناک چیز ہے یہ کوئی ان سے پوچھے جو غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ فلسطین کی بات ہو یا کشمیر کی، وہاں بسنے ولے لوگ اسرائیل اور بھارت کی بربریت کا شکار ہیں۔ برسوں سے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا ہر ایک پل خوف، مصیبت اور وحشت میں گزرتا ہے۔ دہشت کے مہیب سائے ہر وقت ان کے سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ہم جب برٹش سامراج کی غلامی میں تھے، قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک آزادیِ پاکستان شروع ہوئی جبکہ ہندو سامراج کا یہ منصوبہ تھا کہ متحدہ ہندوستان کو برٹش سرکار سے تو آزادی مل جائے مگر ہندوستان کا ہرگز بٹوارا نہ ہو لیکن قائداعظم ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک نئی ریاست کا قیام چاہتے تھے جس کیلئے انکی تحریک اور سرگرمیاں پورے عروج پر تھیں۔ اگرچہ انکی صحت بہت خراب ہو چکی تھی۔ کسی بھی موومنٹ کی اجازت نہیں دے رہی تھی ، ڈاکٹروں نے بھی مشورہ دیا تھا کہ اپنی صحت کے پیش نظر وہ اپنی ورکنگ کم کر دیں، کسی تحریک کا حصہ نہ بنیں لیکن قائداعظم نہ مانے ۔ تمام مشکلات اور خرابیِ صحت کے باوجود ایک ہی کاز کے لیے سینہ سپر رہے کہ انہوں نے آزاد ی کی اس جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ اور ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ بوڑھا تھا یا جو ان، سب آزادی کی اس تحریک کا حصہ بن چکے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح خود اس تحریک کو لیڈ کر رہے تھے۔ہمارے قائداگرچہ دبلے پتلے اور نحیف و نزار جسم رکھتے تھے لیکن بلا کی قوتِ ارادی رکھتے تھے۔ بولتے انگلش میں تھے لیکن اسکے باوجود ہندوستان کے مسلمان انکے شیدائی تھے۔ دیوانہ وار انکے پیچھے بھاگتے تھے۔ ان کی آواز کا جادو اس قدر گہرے اثر رکھتا تھا کہ کوئی بھی انکے سحر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ انگلش میں بھی بات کرتے تو لوگوں کو ان کا لہجہ اور اندازسمجھ میں آ رہا ہوتا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے والدِ محترم پونجا جناح تجارت سے منسلک تھے جبکہ والدہ مٹھی بائی جناح ایک گھریلو خاتون تھیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے دو شادیاں کیں۔ ایک زوجہ کا نام ایمی بائی جناح جبکہ دوسری زوجہ کا نام مریم جناح تھا۔ ان کی اکلوتی اولادینا واڈیا تھیں۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ناصرف اپنی اردو اور فارسی شاعری کو دوام بخشا بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کا خواب بھی دیکھنے لگے جس کی تعبیر کیلئے انھوں نے قائداعظم کو چنا۔ ملاقات کی اور آمادہ کر لیا کہ محمد علی جناح ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کے قیام کی جدوجہد کرینگے۔ 
قائداعظم بھی علامہ اقبال کی باتوں سے خاصے متاثر ہوئے۔ سوچ لیا کہ وہ آزادی کی تحریک کا ناصرف آغاز کرینگے بلکہ اپنی اس تحریک کو پورے ہندوستان میں پھیلا دیں گے۔پھر یہی ہوا‘ ہندوستان میں رہنے والے مسلم بڑی تعداد میں دیوانہ وار قائداعظم کو سننے کیلئے جلسہ گاہوں میں آتے۔ اپنے لیڈر کا پرجوش خطاب سنتے اور آزادی کیلئے پرجوش ہو جاتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آزادی کی یہ تحریک ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ کروڑوں مسلمانوں کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ کسی کا محکموم بن کر جینا کتنا کٹھن اور مشکل ہے۔
جوں جوں تحریک زور پکڑتی گئی ہندوستان کے مسلمانوں کا جذبہ¿ آزادی بھی توانا ہوتا گیا۔محمد علی جناح بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی دور میں انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کیلئے بھرپور کام کیا۔ 1916ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونیوالے میثاقِ لکھنو¿ کو مرتب کرنے میں بھی قائد نے اہم کردار ادا کیا۔ محمد علی جناح آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنماﺅں میں سے تھے۔ بہت ذہین و فطین تھے۔ غیر مسلم بھی ان کی ذہانت کے قائل اور ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کے دلدادہ تھے۔ قائد نے چودہ نکات بھی پیش کیے جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ تھا۔محمد علی جناح 1920ءمیں آل انڈیا کانگریس کی رکنیت اور اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔
1940ءتک قائداعظم محمد علی جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کے حصول کیلئے سخت جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرار دادِ پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کے قیام کا مطالبہ تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑ لی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما جیل کاٹ رہے تھے۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد مختصر عرصے میں ہندوستان میں انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کیلئے مختص نشستوں میںسے بڑی تعداد جیت لی۔ اس جیت نے آل انڈیا مسلم لیگ کے وجود پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ قائداعظم محمد علی جناح ہی ہندوستان کے مسلمانوں کے واحد رہنما ہیں جنھیں ہندوستان کی سیاست سے مائنس نہیں کیا جاسکتا۔
قائداعظم کی ولولہ¿ انگیز قیادت نے پاکستان کے قیام کو عمل میں لانے کیلئے اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ مذاکرات کی ٹیبل پر وہ برٹش سرکار اور گاندھی جی سے یہ منوانے میں کامیاب ہو گئے کہ مسلمانوں کی ایک نئی ریاست کا قیام اب ناگزیر ہے۔ فریقین میں طے پایا کہ مسلمانوں کے اکثریت والے علاقے پاکستان میں شامل کر دیے جائیں۔ 14اگست 1947ءکو جب دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک نئی ریاست وجود میں آئی تو آزادی کے اس جلنے والے چراغ نے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو آسودگی اور نئی خوشیاں بخشیں۔

ای پیپر دی نیشن