تعلیمی پسماندگی اسباب و انکشافات


قیام پاکستان کے بعد 1947 ءمیں ایک نیشنل ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا - جس میں قائد اعظم نے بھی شرکت کرنی تھی مگر وہ بیماری کی وجہ سے اس میں شریک نہ ہو سکے - اس اہم کانفرنس کے لیے انہوں نے ایک تحریری پیغام بھیجا جس میں قائداعظم نے تحریر کیا کہ پاکستانی تعلیم عوام کے مزاج کے مطابق ہونی چاہیے اور اس کا رشتہ ہماری تاریخ اور ثقافت سے جڑا ہونا چاہیے - جب بچے تعلیم سے فارغ ہوکر تعلیمی اداروں سے نکلیں تو ان میں اخلاقی اقدار کا شعور موجود ہو اور وہ عزت نفس اور دیانت کے اوصاف سے مالامال ہوں- سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو ترجیح بنایا جائے - ہر بچے کے لیے تعلیم فری اور لازمی قرار دی جائے-افسوس ہمارے کسی حکمران نے قائداعظم کی اس ایجوکیشن پالیسی پر عمل درآمد نہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آزادی کے 75 سال کے بعد بھی پاکستان تعلیمی لحاظ سے ایک پسماندہ ملک ہے اور اس کی شرح خواندگی صرف ساٹھ فیصد ہے جبکہ 40 فیصد افراد غیر تعلیم یافتہ ہیں-بھارت کے وزیراعظم نہرو نے 1951 ءمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایک یونیورسٹی قائم کی تھی - جس کی وجہ سے آج ہندوستان سائنس و ٹیکنالوجی میں دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے-
ہم نے قائد اعظم کی ہدایات کے مطابق نہ تو سائنس و ٹیکنالوجی پر کوئی توجہ دی اور نہ ہی بچوں کے لئے تعلیم کو لازمی اور فری بنایا- 18ویں ترمیم کے بعد آئین میں ایک ترمیم 125 اے شامل کی گئی جس میں تحریر کیا گیا کہ ریاست اس امر کو یقینی بنائے گی کہ پاکستان کے 5 سے 16 سال تک کے ہر لڑکے کو لازمی اور فری تعلیم دی جائے گی-
اس آئینی ترمیم کو بھی پندرہ سال ہونے کو ہیں مگر کسی صوبے نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا -آغا خان یونیورسٹی کی معتبر رپورٹ کے مطابق 2015 ءمیں داخلے کی شرح 67 فیصد تھی - 2020 ءمیں داخلے کی شرح 64 فیصد تک گر گئی- پنجاب میں شرح 70 فیصد بلوچستان میں 57 فیصد رہی سندھ کی شرح 61 فیصد سے 55 فیصد تک گر گئی- کے پی کے میں 71 فیصد سے 66 فیصد تک آگئی - رپورٹ کے مطابق سکول جانے والے بچوں کی نصف تعداد سکولوں سے باہر ہے- تعلیمی معیار کی حالت یہ ہے کہ آٹھویں جماعت کے بچے پانچویں جماعت کے ریاضی کے سوال حل نہیں کر سکتے - پانچویں جماعت کے بچے وہ کتب پڑھ رہے ہیں جو پہلی جماعت کے بچوں کو پڑھنی چاہئیں - پاکستان میں صرف 15 فیصد گریجویٹ ہیں جو بہتر روزگار کے قابل ہوتے ہیں- ہر صوبے میں گھوسٹ سکول اور گھوسٹ اساتذہ موجود ہیں- ہم تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد خرچ کرتے ہیں اور جو خرچ کر رہے ہیں وہ بھی ضائع جا رہا ہے کیونکہ جو بچے تعلیم حاصل کر کے فارغ ہو رہے ہیں وہ عالمی معیار پر پورے نہیں اترتے اور پاکستان میں بھی ان کے لیے مناسب روزگار حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا - عمران خان کے دور حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی سربراہی میں یکساں نصاب کے لیے سنجیدہ کوششیں کی گئیں مگر صوبوں کے درمیان ان پر اتفاق رائے نہ ہو سکا اور نہ ہی آج تک عملدرآمد کیا جارہا ہے-
تعلیمی پسماندگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے جو پاکستان کو ایک آزاد قوم کی طرح تعلیمی نصاب بھی نہیں بنانے دیتے اور نہ ہی پاکستان کے جاگیردار یہ گوارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے عوام پڑھ لکھ کر با شعور اور بیدار شہری بن جائیں- تعلیم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہی آج پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ اس کی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی دو ہزار بہترین یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ہے- استاد الاساتذہ اور ماہر تعلیم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی صائب رائے کے مطابق حکومت پاکستان کو پرائمری تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے- تعلیمی نصاب قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات قرآن کے سماجی اخلاقی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے-پرائمری جماعت کے طلباءکو مقامی زبان قومی زبان اردو اور انگریزی کی بتدریج تعلیم دی جائے-اساتذہ میرٹ اور صرف میرٹ پر بھرتی کیے جائیں - ان کی اپنی تعلیمی قابلیت اس معیار کی ہو کہ وہ طلباءکو نہ صرف اچھی تعلیم دے سکیں بلکہ ان کی اچھی تربیت بھی کر سکیں- انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم ایک اچھی نسل تیار کرنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم ہائر ایجوکیشن پر زیادہ توجہ دینے کی بجائے پرائمری تعلیم پر توجہ دیں کیونکہ جب تک پرائمری کے طلبہ بہترین تعلیم سے آراستہ نہیں ہوں گے وہ ہائر ایجوکیشن کے بعد بھی دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے- انگریزی میں تعلیم دینے کی وجہ سے بچوں کی قابل ذکر تعداد سکول چھوڑ جاتی ہے-پاکستان میں امتحانات کا نظام بڑا کمزور ہے بچے نقل مار کر پاس ہو جاتے ہیں-غیر معمولی کرپشن نے بھی پاکستان کے دوسرے شعبوں کی طرح تعلیمی نظام کو بھی متاثر کیا ہے- اساتذہ کی بھرتی سفارش پر کی جاتی ہے-
سابق وزیر اعلی پنجاب اور موجودہ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے دانش سکولوں کا جو تجربہ کیا تھا وہ ناکام ثابت ہوا ہے - کیونکہ عام طور پر سیاستدان منصوبہ بندی کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں-ایک رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے پہلے دور میں پانچ لاکھ طلبہ پرائیویٹ سکولوں سے گورنمنٹ سکولوں میں منتقل ہوئے تھے وہ دوبارہ پرائیویٹ سکولوں میں چلے گئے ہیں - بنگلادیش تعلیم کے شعبے میں پاکستان سے آگے نکل گیا ہے- باوثوق ذرائع کے مطابق پاکستان میں ملی بھگت کرکے گورنمنٹ سکولوں کے تعلیمی معیار کو گرایا گیا تاکہ پرائیویٹ سکول تعلیم کے نام پر تجارت کر سکیں- پاکستان میں تعلیمی اور معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے- کاش پاکستان کو سر سید احمد خان جیسی ایک اور عظیم شخصیت میسر ہو سکے جو پاکستان میں تعلیمی انقلاب برپا کر دے- افسوس ہمارے سیاستدان اقتدار کی سیاست میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ انہیں تعلیم صحت اور معیشت کا کوئی احساس نہیں ہے-

ای پیپر دی نیشن