وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ جب میں نے حلف اٹھایا تو مجھے بھی علم نہیں تھا کہ پاکستان کی معیشت اتنی زیادہ تباہ ہو چکی ہے۔ پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا ہے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ ختم ہو چکا ہے۔ لیکن مخلوط حکومت اور اداروں کی کاوشوں نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ عمران خان نے چین کو ناراض کر دیا تھا۔ عمران خان نے گھڑی بیچ کر پاکستان کی عزت خاک میں ملا دی۔ 2017ءتک ترقیاتی کام ہوئے اس کے بعد کی حکومت نے ہر چیز پر غلاف رکھ دیا۔ دہشت گردی پھر جنم لے رہی ہے۔ اس ناسور کا سر کچلنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔ 8 ماہ میں بھرپور کام کریں گے۔ پھر عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ ووٹ خدمت کرنے والوں کو دینا ہے یا جھوٹے نعرے لگانے والوں کو۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز مختلف ترقیاتی منصوبوں کے سنگِ بنیاد اور افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وزیراعظم نے معیشت کی صورتِ حال سے لاعلمی کا اظہار حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے تقریباً 8 ماہ بعد کیا ہے جو حقیقت حال کے برعکس ہے۔ اپریل میں جب عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تھی تو اس کے پیچھے جن محرکات کو بنیاد بنایا گیا تھا ان میں اہم ترین بات معیشت کی زبوں حالی ہی تھی۔ عمران خان کی ناقص معاشی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے معیشت کی تباہ حالی اور عوام کے روٹی و روزگار کے گھمبیر مسائل پر اضطراب کو بھانپ کر ہی میاں شہباز شریف اور ان کی اتحادی جماعتوں نے عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تھی اور پھر اپنی تجربہ کار اقتصادی ٹیم کے ذریعے معیشت کی ڈانواں ڈول کشتی کو اقتصادی استحکام کے ساحل سے ہمکنار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب آٹھ ماہ کے بعد جب ملک کی معیشت کو سنبھالنے میں ناکامی کا سامنا درپیش ہے اور حالات سدھرنے کے بجائے مزید الجھاﺅ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں تو وزیراعظم کی طرف سے لاعلمی کا اظہار عوام کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کو آج آٹھ ماہ کے بعد یہ انکشاف کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ گزشتہ کئی ماہ سے ملک کے ماہرینِ اقتصادیات چیخ چیخ کر ملکی معیشت کی تباہ حالی کے بارے میں دہائی دیتے آ رہے ہیں۔ اخبارات کے صفحات اور الیکٹرانک میڈیا پر دکھائے جانے والے پروگراموں میں یہ بات تواتر سے کہی جا رہی ہے کہ ملک کی معاشی حالت بہتر نہیں ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔گزشتہ چھ ماہ سے بہت سے ٹیکسٹائل یونٹس بند پڑے ہیں جس کی وجہ سے بیروز گاری بڑھ گئی،2 ارب ڈالر ماہانہ افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں۔ درآمدات میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے برآمدات کم ہوتی جا رہی ہیں جن کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ڈالر پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں آج بھی مستحکم ہے اور اس کی اڑان جاری ہے۔ حالانکہ لندن میں مقیم سابق وزیر خزانہ کو تمام قانونی رکاوٹیں ہٹا کر پاکستان میں واپس اس بِرتے پر لایا گیا تھا کہ وہ پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دیں گے۔ ڈالر کو 200 روپے تک لائیں گے اور تجارتی خسارہ اور گردشی قرضوں میں کمی لائیں گے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت کے علاوہ خود اسحاق ڈار کا ا پنا دعویٰ بھی یہی تھا لیکن سب دعوے ہوا ہو گئے۔ نہ تو ڈالر 200 روپے تک آ سکا۔ نہ تجارتی خسارہ میں کمی واقع نہ ہوئی ، نہ ہی زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو سکا۔ چنانچہ معیشت کے جو حالات پہلے تھے اس سے بھی بدتر حالات ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ انہی کی جماعت کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو بھی کھل کر کہنا پڑا کہ پاکستان کی معاشی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ پاکستان جس صورتِ حالات سے دوچار ہے اس میں وہ تکنیکی طور پر تو ڈیفالٹ ہو چکا ہے لیکن باقاعدہ دیوالیہ ہونے کا اعلان ابھی باقی ہے۔ مفتاح اسماعیل گھر کے بھیدی تھے اس لیے ان کی رائے کو یوں ہی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
آج ڈالر کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان پر واجب الادا قرضوں کے حجم میں معتدبہ اضافہ ہو چکا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی ہونے کے باوجود پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اس تناسب سے کمی نہیں کی گئی جو کمی کی گئی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے، بجلی کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ چکا ہے۔ گیس کی فراہمی میں تعطل پیدا ہو گیا ہے ۔اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ عمران خان کے دور میں آٹے ، گھی ، آئل ، چاول، دودھ ، دہی اور گوشت وغیرہ کی جو قیمتیں تھیں آج ان میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ بعض علاقوں میں تو آٹے کے تھیلے بھی نایاب ہو چکے ہیں۔ یہ صورتِ حال ازخود حکومتی معاشی پالیسیوں کی ناکامی کا پتا دے رہی ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم کا یہ ارشاد کہ ”معیشت اتنی تباہ حال تھی، مجھے علم نہیں تھا“ خود اپنا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے۔ مزید برآں وزیر اعظم نے موجودہ بدترین معاشی صورتِ حال کے باوجود کابینہ کے حجم میں اضافہ کیا۔ غیر ملکی دوروں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا۔ غیر پیداواری اخراجات بڑھ گئے جو یقینی طور پر ملکی معیشت پر ایک بوجھ ہی تصور کئے جائیں گے۔
موجودہ حکومت کی معیشت کو البتہ سب سے زیادہ دھچکا حالیہ تباہ کن بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے پہنچا جس کے باعث ہزاروں ایکڑوں پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ پل پانی کے تیز ریلے میں بہہ گئے، بے شمار سکول ، مکانات مٹی کا ڈھیر بن گئے۔ انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا۔ لاکھوں ایکڑ اراضی دریا برد ہو گئی اور تین کروڑ سے زائد افراد بے خانماں ہو گئے۔ اگرچہ اس تباہ حالی پر دنیا کے مختلف ممالک اور عالمی اداروں نے پاکستان کی مالی امداد بھی کی لیکن جس قدر وسیع پیمانے پر نقصان ہو چکا ہے اس کا بہرحال ازالہ نہیں ہو سکا اور اس کے تمام منفی اثرات پاکستان کی معیشت پر پڑے۔ سو ان حالات میں سابقہ حکومت کی ناقص پالیسیوں پر ماتم کرنا درست نہیں۔ یہی رویہ عمران خان کی حکومت کا رہا ہے جنہوں نے اپنے پونے چار سالہ اقتدار کے دوران اپنی پیش رو حکومت ہی کے لتے لیتے گزار دئیے اور یہی رٹ لگائے رکھی کہ انہیں سابقہ حکومت کی طرف سے خزانہ خالی ملا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کے قریب تھے اور ملک کی معاشی حالت انتہائی دگرگوں تھی۔ عمران خان کی حکومت کی طرف سے اپنی پیشِ رو حکومت کے خلاف اس نوع کی الزام تراشیوں کو جس طرح نواز لیگ سمیت اس کی دیگر مخالف جماعتوں نے مسترد کر دیا تھا اسی طرح موجودہ حکومت کی طرف سے بھی اپنی پیش رو حکومت کی پالیسیوں کا رونا رونا اب قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔
حکومت کے پاس تجربہ کار، جہاندیدہ وزیر خزانہ اور بہترین معاشی ٹیم اور اعلیٰ دماغ کے حامل پالیسی ساز موجود ہیں اب اسے ملکی معیشت کو اس کے پاﺅں پر کھڑا کرنے میں کون سی رکاوٹ حائل ہے۔
محض بیانات سے کام نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے عملی طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ڈالر کو 200/- روپے کی سطح پر لانا ، درآمدات اور برآمدات میں حائل تفاوت کو کم کرنا، بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو عوام کی پہنچ میں لانا، اشیائے خورد و نوش کے نرخوں میں معتدبہ کمی لانا اور سب سے بڑھ کر ملک میں سیاسی فضا کو معتدل رکھنا حکومت ہی کی ذمہ داری ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو ہنگامی بنیادوں پر ملکی معیشت میں بہتری لانے کے لیے انقلابی نوعیت کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ سرمایہ کاری کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ روزگار کے امکانات پیدا ہوں اور عام آدمی محفوظ اور پرسکون زندگی بسر کر سکے۔ جب تک یہ اہداف حاصل نہیں ہو جاتے ملک کی خدمت کے دعوے بے اثر رہیں گے اور آنیوالے انتخابات حکومتی اتحادی جماعتوں کیلئے بھاری ثابت ہو سکتے ہیں۔