کئی شہروں میں گیس کی بندش، بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری
اس وقت عوام شدید موسم سرما میں دوہرے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ ایک تو گیس کی کمیابی کا سلسلہ ہے جو ہر سال موسم سرما میں عوام کے لیے آزمائش بن کر سامنے آتا ہے۔ اب اس کے ساتھ بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی شامل ہو کر اس عذاب کو دو آتشہ بنا رہی ہے۔ گیس نہ ہو تو چلو بندہ بجلی کا ہیٹر یا چولہا استعمال کر کے کام چلا سکتا ہے۔ حالانکہ موجود دور میں بجلی کی فی یونٹ قیمت اتنی ہے کہ خوف کے مارے لوگ گھروں میں لائٹیں بجھا کر اندھیرا کرنے پر مجبور ہیں۔ رہی بات گیس کی تو وہ آئے گی تو کام چلے گا۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ کھانے پینے کے اوقات میں گھریلو صارفین کو گیس فراہم کی جائے گی۔ خدا جانے وہ کون سے خوش قسمت صارفین ہیں جنہیں صبح، دوپہر ، شام کو یہ نعمت نصیب ہوتی ہے۔ لوگ تو دن ہو یا رات ہر وقت ماچس جلا جلا کر سوئی گیس کے چولہوں کی آرتی اتارتے نظر آتے ہیں مگر کیا مجال ہے جو گیس کا ایک شعلہ ہی بلند ہو۔ یہ مشق دن رات جاری رہتی ہے۔ اب صبح دوپہر شام کو نجانے کہاں اور کونسی گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ سردیوں میں پہلے بجلی کی فراہمی قدرے بہتر ہو جاتی تھی۔ لوگ گیس نہ سہی بجلی سے تھوڑا بہت کام چلا لیتے تھے۔ مگر اب تو نہ بجلی ہوتی ہے نہ گیس۔ ہر طرف ایک نامرادی کا سماں نظر آتا ہے۔ خدا جانے سرد علاقوں میں لوگ کس طرح گزر بسر کرتے ہوں گے۔ لکڑی اور کوئلے کے نرخ بھی سونے کے بھاﺅ کی طرح ہو گئے ہیں جنہیں سن کر آنکھوں تلے اندھیرا چھا ج اتا ہے۔ خریدنے کی سکت نہیں رہی۔ اس پر تو یہی کہہ سکتے ہیں:
گیس و بجلی نہ ہو میسر جب
سردی گرمی عذاب ہیں دونوں
٭٭٭٭٭
پاکستان سے ماہانہ 2 ارب ڈالر افغانستان سمگل ہو رہے ہیں
اس وقت ملک میں سونے کی قیمت کی طرح ڈالر کا ریٹ جو روزبروز چڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہی سمگلنگ ہے۔ پاکستان سے دھڑا دھڑ ڈالر افغانستان بھیجا جا رہا ہے جہاں اس کی قیمت پاکستان سے زیادہ ہے۔ اگر پاکستان میں ڈالر 200 کا ہے تو افغانستان میں 250 تک اس کی قیمت مل رہی ہے تو پھر کرنسی ایکسچینج والوں کی رال نہ ٹپکے تو اور کیا ہوا۔ کرنسی کا غیر قانونی کاروبار کرنے والے اربوں ڈالر اِدھر اُدھر کر رہے ہیں۔ یہ سب کام قانون کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے خزانہ خالی ہو رہا ہے نہ انتظامیہ کو فکر ہے نہ پولیس کو۔ کوئٹہ اور پشاور غیر قانونی کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کی جنت ہیں۔ چند روز قبل دکھاوے کے لیے پولیس نے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر پشاور میں ایک دو دکانوں پر چھاپہ مارا چند ہزار ڈالر برآمد کر کے انہیں سیل کیا پھر اس کے بعد وہی گلشن کا کاروبار چل رہا ہے۔ پھر کوئٹہ میں کارروائی ہوئی دکھاوے کی پکڑ دھکڑ چند ہزار ڈالر برآمد پھر وہی دھندا جاری۔ جب تک ملک کے بڑے بڑے غیر قانونی کرنسی ڈیلروں ، ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں اور کرنسی سمگلروں پر آہنی ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا ملک سے ڈالر کا فرار جاری رہے گا جس کا خمیازہ پورے ملک کو اٹھانا پڑے گا۔ 2 ارب ڈالر معمولی رقم نہیں۔ پاک افغان بارڈر پر سختی کر کے اس بہاﺅ کو روکا جا سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ ملکی بقا کے لیے ڈالر کے سمگلروں کے لیے فی الفور سزائے موت کا اعلان کریں۔ ان کی املاک ضبط کریں تاکہ ملک سے ڈالروں کا فرار روکا جائے ورنہ ہم دیوالیہ ہونے کو ہیں۔ویسے حیرت کی بات ہے جب بارڈر پر خاردار تاریں لگی ہیں تو اس کا مطلب ہے قانونی راستوں سے ڈالر کا یہ غیر قانونی کاروبار ہو رہا ہے۔ اس بہتی گنگا میں بہت لوگ ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔ جبھی تو طورخم ہو یا چمن بارڈر یہ سمگلروں کی جنت کہلاتے ہیں۔ اسلحہ ڈالر، سامان سب کچھ آسانی سے اِدھر اُدھر ہو رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
قومی سلامتی کو زرداری کی نابالغ فرزند کے رحم و کرم پر چھوڑنا مجرمانہ حماقت ہے۔ عمران خان
ایسی حماقتیں ہمارے ہاں اکثر و بیشتر ہوتی رہتی ہیں۔ دور کسی کا بھی ہو عمر کے لحاظ سے نابالغ ہو یا دماغی لحاظ سے نابالغ ہمارے ہاں ہر اہم کام اس کے سپرد کیا جاتا ہے جو من پسند بندہ ہو۔ چاہے اسے آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ وزارت خارجہ کا کام نہایت اہم نوعیت کا ہوتا ہے۔ اب نجانے کیوں وزیر خارجہ بلاول ہمارے اپوزیشن رہنما عمران خان کو کھٹکنے لگے ہیں۔ انہیں لگتا ہے افسوس ہو رہا ہے کہ اتنے دورے انہوں نے بطور وزیر اعظم 4 سال میں نہیں کئے جتنے بلاول نے چند ماہ میں کئے ہیں۔ ابھی وہ یہ شکوہ کرتے کرتے اچانک موضوع بدل کر وہ وزیر خارجہ کو نابالغ قرار دینے لگے ہیں۔ اس پر پیپلز پارٹی والے کہیں جوابی طور پر عمران خان کی دماغی صحت پر شک و شبہ نہ کرنے لگ جائیں۔ ویسے یہ اتفاق ہے کہ بلاول کی طرح ان کے نانا بھی جوانی میں ہی متحدہ پاکستان کے وزیر خارجہ بنے تھے اور ان کی بطور وزیر خارجہ بہت شہرت بھی رہی اور ان کی سیاسی مہارت کے چرچے آج تک ہوتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک وہ اپنے نانا کی ذہانت و مہارت کی پاسنگ کو بھی چُھو نہیں سکے۔ آگے معلوم نہیں وہ پختہ کار بن کر کیا نام کماتے ہیں۔ اب عمران خان کو جو فکر لاحق ہے اس کا مداوا کون کرے۔ جن کے لیے وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ مجرمانہ حماقت کر رہے ہیں تو خود ان کی اپنی ذہانت انہی اداروں کے ساتھ چومکھی لڑائی کی اجازت کس طرح دے رہی ہے کیا یہ بھی حماقت نہیں۔ لگتا ہے ہمارے سیاستدان ذہنی ہو یا جسمانی دونوں لحاظ سے ابھی بالغ نظری تک نہیں پہنچے۔ دعا ہے ہمارے سیاستدان جوان ہوں یا بوڑھے سب میں بالغ نظری بیدار ہو۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن ملتوی
لگتا ہے موجودہ سیاسی گہما گہمی یا شور و غل کے دور کے نحس اثرات بلدیاتی الیکشن پر پڑنے لگے ہیں۔ وہ بھی سندھ اور اسلام آباد میں۔ کراچی میں عرصہ دراز سے شہری اور دیہی حلقہ بندیوں کا رولا تو سر کھا رہا تھا اب اسلام آباد میں بھی اچانک نئی حلقہ بندیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ نئے حلقوں کے وجود میں آنے سے پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن کرانا مشکل ہو گیا۔ معاملہ کراچی کے بلدیاتی الیکشن کی طرح التوا کے سبب عدالت میں گیا۔ ابھی وہاں معاملہ چل رہا تھا کہ الیکشن کمشن نے خود بلدیاتی الیکشن کا بوریا بستر باندھتے ہوئے اسے ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب عدالت بھی کہہ رہی ہے کہ جس نے الیکشن کرانا ہے جب اس نے تاریخ ملتوی کر دی تو ہم کیا کر سکتے ہیں تو ا س طرح اب اسلام آباد میں 31 دسمبر کو ہونے والے الیکشن اپنی دکان بڑھا گئے ہیں دیکھتے ہیں نئی تاریخ کا اعلان کب ہوتا ہے اور کونسی تاریخ ملتی ہے۔ فی الحال تو مخالفین شور مچا رہے ہیں کہ 27 کلومیٹر پر حکمران جماعت اس مختصر رقبہ کی راجدھانی میں بھی ہارنے کے ڈر سے بلدیاتی الیکشن نہیں کرا رہی۔ یہ تو بڑی افسوس کی بات ہے۔ ہار جیت بعد کا مسئلہ ہے۔ پہلے میدان میں تو آئیں پھر دیکھتے ہیں کس میں کتنا ہے دم۔ پہلے ہی سے خوفزدہ ہو کر کسی معاملے میں پسپائی اختیار کرنے سے بدنامی ہوتی ہے۔ لوگ باتیں بناتے ہیں۔ باقی حکمران جانیں ان کے نو رتن جانیں جنہوں نے ایسا کرنے کی راہ دکھائی اور سبکی کا سامان پیدا کر دیا۔
بدھ ،4جمادی الثانی 1444ھ،28 دسمبر2022ء
Dec 28, 2022