فرانس مغربی یورپ کاایک اہم ملک ہے۔ یورپین یونین کی تشکیل میں فرانس کا بڑا ہاتھ ہے یہ دُنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہے جس کا حجم 3.06 ٹرلین ڈالر ہے۔ یہ گروپ آف سیون نیٹو اور اوای سی ڈی کا رکن ہے۔ایٹمی طاقت اور اقوام متحدہ میں ویٹو کا حق رکھتا ہے۔فرانس میں 47 فیصد کیتھولک اور 2 فیصد پرٹسٹٹ عیسائی رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد 4 فیصد ہے۔ فرانس پڑھی لکھی قوم ہے۔ جہاں شرح خواندگی 99 فیصد ہے لیکن اس کے باوجود اس قوم میں نظم و ضبط کا فقدان ہے۔ ٹریفک قوانین کی پرواہ نہیں کرتے۔ مذہبی اور لسانی تعصب کا شکار ہیں۔ اگرچہ تمام فرانسیسی باشندے انگلش جانتے ہیں لیکن جان بوجھ کر فرانسیسی زبان میں بات کرتے ہیں۔ انگریزوں کو اچھا نہیں سمجھتے۔ مسلمانوں کے خلاف خاص طور پر تعصب رکھتے ہیں۔ ایک یا دو دہشت گردی کے واقعات کو بہانہ بنا کر پورا ملک مسلمانوں کو نفرت کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ توہن رسالت کے مرتکب افراد کی آزادی اظہار رائے کی آڑ میں پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ پاکستانی مسلمانوں نے اس پر شدید تنقید کی اور حکومتی سطح پر بھی احتجاج کیا گیا۔شاید یہ دُنیا کا واحد ملک ہے جہاں سرکاری سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگریز بیان دیئے جاتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کے صدر ایمنول میکرون دُنیا بھر کے مسلمانوں میں بہت غیر مقبول ہے۔ حال ہی میں ہونے والے عالمی فٹ بال کپ کے مقابلے میں مراکش کے مسلمانوں نے میکرون کے اسٹیڈیم میں داخل ہوتے ہی کلمہ طیبہ کے فلک شگاف نعروں سے ان کا استقبال کرکے مسلمانوںکے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ مجھے دو مرتبہ پیرس جانے کا موقع ملا۔ ایک مرتبہ 1974ءمیں جب برطانیہ میں ایک سیمینار میں شریک تھا تو دو دن کے لئے سات دوستوں کے ایک گروپ کے ساتھ پیرس گیا۔دوسری مرتبہ 1983ءمیں جب ہیگ میں ماسٹرز کر رہاتھا تو آئی ایس ایس کے 50 طالب علموں کے ہمراہ ایک ہفتے کے لئے پیرس گیا۔ ہمیں بس میں بتایا گیا کہ جس ملک میں ہم ایک ہفتہ گزارنے جا رہے ہیں وہ اگرچہ یورپ کا بہت ترقی یافتہ ملک ہے لیکن یہاں جرائم کی تعداد زیادہ ہے اور اکثر لوگ نظم و ضبط ا ور قوانین کی پابندی نہیں کرتے۔ اس لئے سڑک کراس کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیں۔ کیونکہ کچھ ڈرائیور زیبرا کراسنگ کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اپنی جیبوں کی خود حفاظت کریں۔ اور جیب کتروں سے ہوشیار رہیں یہاں چوری چکاری عام ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ہمیں اگلے دن ہی اس کا تلخ تجربہ ہوگیا۔ ہم نے پیرس کے درمیانہ درجے کے ہوٹل میں 50 طالب علموں کے لئے 25 کمرے ریزرو کرائے ہوتے تھے۔ ایک کمرے میں دو طالب علموں کے ٹھہرنے کا انتظام تھا۔ ہم سب صبح یہ ناشتہ کے بعد گھومنے کے لئے نکل جاتے تھے اور رات کو واپس ہوٹل پہنچتے تھے۔ پہلے ہی دن یہ حادثہ ہوگیا کہ ایک کمرے میں فلپائن سے تعلق رکھنے والی دو لڑکیوں نے بتایا کہ ان کے کمرے میں چوری ہوگئی ۔ سوٹ کیس کھلے پڑے ہیں اور سامان بکھرا پڑا ہے اور کافی قیمتی سامان چوری ہوگیا ہے چونکہ تمام طالب علموں کو ہدایت کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے پاسپورٹ اور نقدی کمروں میں نہ چھوڑیں۔ اس لئے ان لڑکیوں کا زیادہ نقصان نہیں ہوا۔
جب ہوٹل انتظامیہ سے شکایت کی گئی توا نہوں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ پولیس میں رپورٹ درج کر ا دیںگے۔ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ یہاں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ پولیس نے کاروائی شروع کی تو مجھے پاکستان کی پولیس یاد آگئی۔ فرانسیسی پولیس نے ایف آئی آر لکھتے ہوئے ان لڑکیوں سے پہلا سوال یہ کیا کہ انہیں کس پر شک ہے۔ لڑکیوں نے کہا کہ وہ نیدرلینڈ سے آئی ہیں وہ کیسے بتا سکتی ہیں کہ انہیں کس پر شک ہے۔ یہ تو پولیس کا کام ہے کہ تفتیش کریں کہ کس نے چوری کی ہے؟ پولس نے بے اعتنائی کامظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ تفتیش میں تعاون نہیں کریں گی تو وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے خانہ پوری کرتے ہوئے ان لڑکیوں کا نیدرلینڈ کا پتہ ایف آئی آر میں لکھ کر کہا کہ اگر سامان مل گیا تو ہوٹل والوں کو دے دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ سامان نیدرلینڈ میں ایف آئی آر میں درج پتہ پر پہنچا دیں۔ ایک لڑکی نے طنزیہ پوچھا کہ کیا چور خود آکر ہوٹل والوں کو سامان واپس کر دیں گے یا آپ ان سے خود رابطہ کرکے درخواست کریں گے کہ برائے مہربانی سامان واپس کر دیں۔ پولیس نے اس طنز کو نظر ا نداز کرکے کہا کہ انہیں اور بھی کام کرنے ہیں۔ خدا حافظ
اگلے دن ہم چار دوست ٹرام سٹیشن پر ٹکٹ گھر سے ٹکٹ لے رہے تھے۔ مجھ سے آگے ایک برطانوی دوست تھا۔ اس نے سو فرینک کا نوٹ دیا اور 5 فرینک کا ٹکٹ طلب کیا۔ کھڑکی کی دوسری طرف بیٹھے ہوئے شخص نے بڑی عجلت سے ٹکٹ دیااور ساتھ ہی زُور زُور سے بول کر دس دس فرینک کے نو نوٹ گئے اور ایک پانچ فرینک کا نوٹ ملا کر کہا کہ ”یہ ہے آپ کا ٹکٹ اور پچانوے فرینک“ اور میرے دوست کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ لیکن اس نے کھڑی چھوڑنے سے پہلے رقم گنی تو 85 فرینک تھی۔ اس نے کہا کہ دس فرینک کم ہیں۔ کھڑکی کے دوسری طرف بیٹھے شخص نے کہا ”میں نے ابھی آپ کے سامنے دس دس کے نو نوٹ اور ایک پانچ کا نوٹ آپ کو گن کر دیا ہے“ میرے دوست نے کہا ”آپ ذرا نیچے دیکھ لیں شاید گنتے ہوئے آپ کے ہاتھ سے نیچے گر گیا ہو“بس اتنا کہنا تھا کہ اس نے فوراً نیچے سے نوٹ اُٹھا کر دے دیا اور معذرت کی کہ اس سے غلطی سے نوٹ نیچے گرگیا تھا۔ بعد میں برطانوی دوست نے بتایا کہ وہ کئی مرتبہ فرانس آچکا ہے اور تجربہ ہے کہ یہاں پر کیشئر اسی طرح کے فراڈ کرتے ہیں اور پوری دن میں اچھی خاصی رقم بنا لیتے ہیں۔
فرانس اور مسلمان کیمونٹی
Dec 28, 2022