یوں دی ہمےں آزادی کہ دنیا ہو ئی حےران
اے قائدا عظم ترا احسان ہے احسان
بے شک حضر ت قائد اعظم محمد علی جنا حؒ کا قوم پر احسان ہے جنھوں نے انگر ےز وں اور ہندﺅ ں کی سازشو ں اور مکارےو ںسے لڑ کر ہمےں علیحدہ اور آزاد وطن دےا،آپ نے اپنی بےمار ی کو نظر انداز کر کے پا کستان کا مقد مہ لڑا اور جےت گئے،14اگست1947 کو خواب اقبالؒ کی تعبےر اور بر صغےرکے مسلما نوں کو منزل مل گئی۔با نی پا کستان حضر ت قائدا عظمؒ نے بار بار کہا حصول پا کستان ہماری منزل نہیں،نشان منزل ہے۔پاکستان کو خو اندہ ،مضبو ط،خو شحال اور تر قی ےا فتہ بنانا ہماری منزل ہے اور اس منزل تک پہنچنے کےلئے ہم سب کو اپنا اپنا کردار خو ش اسلو بی اور ذمہ داری سے ادا کر نا ہے۔افسوس قیام پا کستان کے اےک بر س بعد حضر ت قائدا عظم ہم سے جدا ہو گئے،قوم اس وقت سے آ ج تک قائدا عظم ثا نی لیڈ ر کی تلاش مےں ہے”ےہ قوم اپنے براہیم ؑ کی تلاش میں ہے“....ہماری اسلامی تہذیب کو کوئی نہیں مٹا سکتا ،اس اسلامی تہذیب کو جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ہمارا نور ایمان زندہ ہے ،ہمیشہ زندہ رہے گا۔دشمن بے شک ہمارے اوپر ظلم کرے ،ہمارے ساتھ بدترین سلوک روا رکھے لیکن ہم اس نتےجے پر پہنچ چکے ہیں اور ہم نے یہ سنگین فیصلہ کر لیا ہے اگر مرنا ہی ہے تو لڑتے لڑتے مریں گے”مسلمان ایک جھوٹے احساس سلامتی میں مبتلائے فریب رہے اور اقلیت کی اصطلاح کو تاریخی ،آئینی اور قانونی سمجھا جانے لگا لیکن مسلمان کسی حیثیت سے بھی یورپی ممالک کی اقلیت نہیں ہیں،ایک چیز قطعی ہے اور وہ یہ کہ ہم کسی طرح بھی اقلیت نہیں ہیں بلکہ ہم اپنے نصب العین کے ساتھ بجائے خود ایک علیحدہ اور ممتاز قوم ہیں ‘”پاکستان اس دن وجود میں آگےا تھا جب ہندوستان کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا،مسلمانوں کی قومیت کا بنیادی کلمہ توحید ہے وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کی جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی؟تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ نہ ہندو¿ں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔“قائداعظم کے ان فرمودات واضع طور پر یہ پتہ دیتے ہیں کہ وہ کبھی بھی سیکولر نہیں رہے،زمانہ طالب علمی اور پیشہ ورانہ زندگی کے واقعات اور تحریک پاکستان کے دوران تقریروں کے اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں اسلامی تعلیمات پوری طرح راسخ تھیں۔ایک بار انہوں نے قرآن مجید کو بھی پوری طرح پڑھ چکنے کا عندیہ دےا تھالیکن اردو ،عربی اور فارسی سے بہت زےادہ واقفیت نہ ہونے کے باعث وہ ہندوستان کی رواےتی مذہبیت سے دور ہی رہے۔پھرکیایہ ایک تاریخی شہادت نہیں ہے کہ غازی علم دین شہیدؒکامقدمہ قائداعظم نے اس وقت مفت لڑا تھاجب کہ انکاشمار ہندوستان بھر کے مہنگے ترین وکیلوں میں ہوتاتھا۔قائداعظم ؒنے پیرصاحب آف مانکی شریف کو تحریک پاکستان میں شامل ہونے کی دعوت دی۔پیرصاحب فرماتے ہیں کہ میں بہت پریشان ہواکہ بغیرداڑھی والے کی قیادت کیونکرقبول کی جائے،انہوں نے ذہنی کشمکش کے باعث استخارہ کیااوردیکھاکہ میدان عرفات میںآپبے شمارحاجیوں کے درمیان کھڑے ہیں اورسب حجاج نے سفیداحرام زیب تن کیے ہوئے ہیں لیکن ایک شخص بدیسی لباس میں آپ کے ساتھ کھڑاہے اور آپاس کی طرف بہت التفات اور محبت فرمارہے ہیں،پیرصاحب کہتے ہیں کہ میری طرف اس شخص کی پشت تھی پھرجب میں نے آگے بڑھ کر دیکھاتووہ قائداعظم محمدعلی جناح تھے۔تحریک پاکستان کے دوران ہندو قےادت نے انگریز سے مراعات لینے کے لےے کیا کچھ نہیں کیا ۔ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے اپنی کتاب میں نہرو کی بیوی سے تعلقات تک کا ذکر بھی کیا ہے،لیکن اس طرح کے ماحول میں رہنے اور طویل جنگ لڑنے کے باوجودمحترمہ فاطمہ جناح کو مردوں سے ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہ تھی،حتی کہ کسی نے انہیں ننگے سر بھی نہ دیکھا۔تقسیم ہندمیں اس طرح کے رویے سے مسلمانوں کا نقصان بھی ہوا لیکن قائداعظم نے یہ ثابت کیا کہ ایک سچے مسلمان کے لےے ایمان اورشرم و حیا سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا۔زےارت ریذیڈنسی میںقائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے،انکے خدمتگار سے جب ان اےام کا احوال پوچھا گےا تو اس نے بہت ساری باتوں کے ساتھ ساتھ انکی آخری نماز کا بھی تذکرہ کیا،اس کے بقول قائداعظم باقائدگی سے فقہ حنفی کے مطابق نماز ادا کرتے تھے آخری نمازجو انہوں نے ادا کی اس کا حال خدمگار کی زبانی سنئے”ظہر کی نمازکی ادائگی کے بعد انہوں نے کہا کہ عصر کا وقت ہوتے ہی مجھے بےدار کر دینا میں نے کہا جی اچھا،لیکن آنکھ کھلنے پر انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ابھی عصر کا وقت نہیں ہوا؟ میں کہا ہو چکا ہے لیکن آپ ابھی آرام کر لیں ،میں تھوڑی دیر بعد آپ کو نماز پڑھا دوں گا کیونکہ نقاہت بہت زےادہ تھی ،انہوں نے فرماےا کہ نہیں اول وقت میں نماز کی ادائگی پسندیدہ ہے پس تکیہ میری کمر کے نیچے کر دو تو میں نماز پڑھ لوں،وضو کے بعد یہ انکی زندگی کی آخری نماز تھی جس کے بعد وہ قومے میں چلے گئے اور بالآخر اﷲ تعالی سے جا ملے“۔قائداعظمؒ کے اس خدمگارکی یہ رواےت ہمارے استاد محترم مولانا عبدالمجید اخوان کے ذرےعے براہ راست ہم تک پہنچی۔