افغان سرحد پر ” شورش کا عذاب“


افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک جس کی سب سے لمبی مغربی سرحد پاکستان سے ملتی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ اس برادر اسلامی ملک سے کبھی ہمیں سکون کی ہوا میسر نہیں آئی۔ 80 کی دہائی میں جب سوویت یونین ٹوٹا، اس وقت سب سے بڑی قربانی پاکستانیوں نے دی اور لاکھوں کی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور جہاں ہماری سرزمین پر ایک بھی غیر قانونی اسلحے کا ذکر نہیں تھا وہیں جگہ جگہ غیر قانونی اسلحے کے وینڈرکھل گئے۔ پاک فوج، حکومتوں اور عوام نے افغان عوام کو خوراک سے لے کر کاروبار تک دے ڈالے۔ کئی افغانیوں نے جعلی پاسپورٹ بنوا کر پاکستان کے راستے ہیروئن کی سمگلنگ شروع کر دی جس کا سارا عذاب پاکستان نے بھگتا اور بعد ازاں بھارت کیساتھ مل کر پاک افغان سرحدوں کو غیر محفوظ کر دیا اور آئے روز افغانستان کی سرحد سے افغان اور تحریک طالبان کے دہشت گرد بلوچستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ خیبرپختونخواہ بھی ان دہشت گردوں سے محفوظ نہیں مگر اب پاکستان نیٹو افواج کو نکالنے اور طالبان حکومت کو جسے سب قومیں تسلیم کریں منوانے کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ تو اب یہ سرحد ایک بار پھر اپنی تاریخ دہرانے لگی ہے، اب کی بار ہمارا دارالحکومت تک اِن سے محفوظ نہیں رہا۔ ابھی ابھی بڑی مشکل سے بیس سال کے قریب جنگ کے بعد پاکستان میں بمشکل امن قائم ہوا تھا، طالبان برسرِاقتدار آئے اور بڑی جدوجہد سے پاکستان نے امریکی اور یورپین افواج کو افغانستان سے نکلوایا، اس سلسلے میں دیگر ممالک جن میں چین اور قطر بھی شامل ہیں، ا±نہوں نے بھی مدد کی مگر جب طالبان نے اپنی حکومت وہاں بنا لی اور ا±ن کے شدید ترین فنانشل کرائسس کو بھی پاکستان نے اپنے ہاں عالمی کانفرنس بلا کر افغانیوں کی مدد کی۔ اس کے باوجود ا±نہوں نے پاکستانی حکومت، فوج اور شہریوں کے جانی دشمن ٹی ٹی پی کو اپنے ہاں پناہ دی ہوئی ہے۔ جب کہ ان ساری کوششوں کے پیچھے اگر پاکستان کو کچھ تھوڑا بہت سکون میسر آرہا تھا تو وہ یہی تھا کہ بھارت ٹی ٹی پی کے ذریعے جو پاکستان میں بدامنی ہر وقت پھیلاتا رہتا ہے اور بلوچستان، خیبرپختونخواہ وغیرہ میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں یہ سب بھارت پیسے دے کر افغانستان کے ذریعے ہی کرواتا تھا اور پاکستان کو یقین تھا کہ طالبان حکومت آجانے کے بعد کم از کم طالبان دہشت گردوں کو تو کنٹرول کر لیں گے۔ مگر اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود افغانستان کے راستے پھر سے دہشت گردی کے واقعات شروع ہو چکے ہیں۔ گو کہ انڈیا دہشت گردوں کی مدد ابھی بھی کر رہا ہے مگر طالبان اپنے اندر اگر بیس ہزار ہارڈ لائنز اور دیگر القاعدہ وغیرہ کو رکھیں گے تو وہ یقینا یہ کام تو کریں گے، کم از کم اس سے پہلے جب امریکی و یورپی افواج افغانستان میں تھیں تو ا±نہوں نے ا±نہیں جیلوں میں تو ڈال رکھا تھا۔ مگر طالبان نے تو ا±نہیں جیلوں سے بھی رہا کر دیا ہے۔ اس لئے کہ ٹی ٹی پی نے طالبان کے امیر کو اپنا لیڈر مان لیا ہے۔ لہٰذا اب طالبان ا±نہیں نہ صرف یہ کہ اپنے ملک سے جانے کا نہیں کہتے بلکہ ا±نہیں اس بات پر بھی پابند نہیں کرتے کہ پاکستانی سرحدوں پر تخریبی کارروائیاں کرنا چھوڑ دیں۔ طالبان اس سلسلے میں پاکستان کو اس وقت سخت مایوس کر رہے ہیں۔ افغان سرحدی علاقوں سے حملے دن بدن تیز ہوتے جا رہے ہیں۔ ابھی انہی دنوں چمن میں سرحد کے پاس افغانستان کی جانب سے شدید فائرنگ اور گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں کئی بے گناہ شہری شہید ہو گئے۔ پاکستان کے تمام شہریوں پر اس عمل پر انتہائی غم غصے کی لہر پیدا ہوئی۔ ہمارے سرحدی علاقے غیر محفوظ ہو گئے ہیں، تجارت بڑھ نہیں رہی جب کہ دہشت گردی میں آئے روز اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ڈالر پاکستان سے اسمگل ہو کر افغانستان جا رہا ہے تاکہ ہماری معیشت پر مزید برے اثرات مرتب ہوں۔ افغانستان کی صورتحال کو اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو جس طرح طالبان نے ہارڈ لائنرز کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے، اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خود طالبان کو بھی ہارڈ لائنز ہونا پڑے گا اور ہمارے تعلقات بھارت اور افغانستان کیساتھ بہتر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ جو ملک ہمارے ہاں دہشت گردی کرواتا ہے، اب ہم اس سے تجارتی تعلقات کیسے رکھ سکتے ہیں۔ اب ان حالات میں پاکستان اور امریکہ دونوں افغانستان کیساتھ اچھے تعلقات نہیں رکھ سکتے کیونکہ دونوں ممالک کے خلاف لوگ افغانستان میں بیٹھے ہیں اور گیس پائپ لائن بھی کبھی افغانستان میں نہیں بچھ سکے گی۔ کیونکہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے چائنا میں صورتحال متاثر ہو سکتی ہے۔ اس لئے پائپ لائن بچھانے کا رسک بھی کوئی نہیں لے گا۔ اب چونکہ صورتحال کافی گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ پہلے تو سیاسی رہنماﺅں اور دیگر سفارتی تعلقات کے ذریعے حالات کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری تھیں مگر اب چونکہ یہ تمام کوششیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں تو فوج نے کوئی حکمت عملی اس ضمن میں نہیں بنائی ہوگی۔ مگر اب جو مشکل حالات پیدا ہو رہے ہیں، فوج کو اپنی کوئی ہارڈ لائن لینا پڑے گی۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہم پچھلے کئی سالوں میں اس طرف کوئی توجہ یا دھیان نہیں دے پائے ہیں اور ہمارے سیاسی و معاشی حالات کا بھی پڑوسی ملک فائدہ ا±ٹھا رہے ہیں۔ لہٰذا ا±نہیں ان حالات میں سرحدوں پر دہشت گردی کرنے کا موقع اب اگر مل گیا ہے تو اس سے دہشت گرد تو پورا فائدہ اٹھائیں گے اور یقینا پاک فوج ا±ن کے دانت بھی کھٹے کر دیگی مگر ان حالات میں طالبان کی افغانستان میں موجودہ حکومت کے بارے میں بھی طالبان نے کچھ سوچا ہے، اپنے عوام کے بارے میں کچھ سوچا ہے، کیا بھارت اور افغانستان میں پلنے والے دہشت گرد، پاکستان میں یوں حملہ آور ہوں گے اور معصوم شہریوں کو شہید کریں گے تو ہم خاموش رہیں گے؟۔ پاکستانیوں کی جانوں کو ہر کوئی اتنا سستا نہ سمجھے، جو آگ وہ بھارت کی سازش کو کامیاب کرنے کیلئے یہاں لگانا چاہ رہے ہیں ، اس آگ کو ا±ن کی طرف واپس موڑنے میں ذرا دیر نہیں لگے گی اور بھارت ا±نہیں بچانے ہرگز نہیں آئے گا۔ کسی قدرتی آفت یا کسی موسم کی شدت پر ا±ن کی مدد کون کرے گا، جو دوست ملک اپنا سب کچھ قربان کرکے ا±ن کی امداد کرتا ہے اسی کے ساتھ یہ افغان حکومتیں دشمنی پر ا±تر آتی ہیں۔
 ا±نہیں یہ احساس نہیں رہتا کہ کس طرح طالبان کے راستے کے ایک ایک کانٹے کو پاک فوج اور پاکستانی حکومت نے اپنے ہاتھوں سے چنا ہے۔ مگر جب کبھی باری آتی ہے تو ا±ن کا امیر دراصل ٹی ٹی پہ کا امیر بن جاتا ہے۔ افغانستان وہ ملک ہے جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کتنا عرصہ تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور سب سے آخر میں جا کر تسلیم کیا۔ آج پھر طالبان وہیں آکر کھڑے ہو گئے ہیں جہاں سے افغانستان کی تاریخ شروع ہوتی تھی۔ اس کے لئے اگر ہم تاریخ کا مطالعہ اچھی طرح کر لیں، اور یہ سبق حاصل کر لیں کہ اپنی سرحدیں پکی بند کریں اور کبھی کسی افغان شہری کو اپنے ہاں داخل نہ ہونے دیں۔

ای پیپر دی نیشن