منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کے لیے مالی معاونت پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا ہے۔یہ فیصلہ ایف اے ٹی ایف کے 20 اور 21 اکتوبر کو پیرس میں ہونے والے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر کیا گیا ۔فیٹف صدر ٹی راجہ کمار کا کہنا تھاکہ پاکستان نے 35 سفارشات پر بہتر انداز میں عمل کیا ہے۔اس اجلاس میں رکن ممالک کے نمائندوں کے علاوہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوامِ متحدہ جیسی تنظیموں کے نمائندے بھی بطور مبصر شریک ہیں۔ پاکستان کی نمائندگی وزیرِ مملکت حنا ربانی کھر کی قیادت میں بھیجا گیا وفد کر رہا ہے۔جون 2022 میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے ’منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ‘ کی مد میں اصلاحات کی ہیں اور اب فیٹف کی ٹیم کی جانب سے پاکستان کا دورہ کر کے اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے یہ اقدامات مستقبل میں نافذ العمل رہ پائیں گے یا نہیں۔وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نجات ملی اور عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اور وقار کی بحالی قوم کو مبارک ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ ہماری عظیم قربانیوں کا اعتراف ہے۔ میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزارت خارجہ ، تمام متعلقہ حکام اور وزارتوں کو مبارک پیش کرتا ہوں۔‘شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ وہ فوجی قیادت کو اس کامیابی میں کلیدی کردار پر سراہتے ہیں اور مبارک دیتے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان 2012 سے 2015 تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ رہ چکا ہے اور پھر 2018 میں اسے دوبارہ اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔اس کی وجہ پاکستان کی جانب سے اس عالمی ادارے کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق مطمئن نہ کر سکنا بتائی گئی تھی۔مارچ 2022 میں ہونے والے نظرثانی اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان نے ’سفارشات کی تکمیل میں خاصی پیشرفت کی ہے‘ تاہم چند نکات پر مزید پیشرفت کی ضرورت ہے۔جون 2022 میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے پلینری اجلاس میں پاکستان کی 2018 اور 2021 کی کارکردگی پر بحث ہوئی تھی اور ان اقدامات کا جائزہ لیا گیا جو پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کی بنیاد پر کیے ہیں۔حکام کے مطابق اب ایف اے ٹی ایف کی سنہ 2018 میں دی گئی تمام 27 سفارشات پر عملدرآمد ہو چکا ہے جبکہ 2021 میں ایف اے ٹی ایف کی ذیلی شاخ ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی جانب سے دیے گئے سات نکات میں سے چھ کو قبل از وقت مکمل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2020 میں پاکستان نے منی لانڈرنگ کے خلاف قانون میں ترمیم بھی کی تھی تاکہ مزید کارروائی کی جا سکے لیکن 2021 کے ریویو میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ’دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں پیشرفت کی مزید مثالیں سامنے لانے کو کہا گیا تھا۔‘رواں سال مارچ میں اور اس سے پہلے 2021 میں منی لانڈرنگ کا جائزہ لینے والے ایشیا پیسیفک گروپ نے پاکستان کو اپنی دوسری فالو اپ رپورٹ میں مزید نگرانی کی فہرست میں شامل کیا تھا لیکن اس کے باوجود ادارہ گاہے گاہے پاکستان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہا ہے۔ادارے کی جانب سے پاکستان کو یہ باور کروایا جا چکا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کے خلاف قانون سازی کے ذریعے ہی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔ 2021 کی رپورٹ کے مطابق ادارے نے فروری 2021 میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تین اہم ترین سفارشات کی تکمیل کرے جن میں دہشتگردوں کو سزا، ان معاملات کی قانونی چارہ جوئی اور مالی معاونت پر پابندیاں شامل ہیں۔ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں ہونے کے دو حصے تھے جن میں ایک تو مالیاتی نظام کو مضبوط کر کے منی لانڈرنگ کا سدِباب کرنا تھا تو دوسری طرف داخلی سطح پر ان افراد اور ان تنظیموں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا تھا جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ان تمام سفارشات میں ایک نکتہ رہ گیا تھا جس میں ایف اے ٹی ایف نے دہشت گردوں کے خلاف قانون سازی اور ان کو ملنے والی مالی معاونت کی تفتیش کرنے پر بھی زور دیا تھا۔ اسی سلسلے میں ادارہ پاکستان سے دہشتگردوں کی مالی معاونت پر پابندی کے قانونی اطلاق کا ثبوت بھی مانگتا رہا ہے۔پاکستان نے اس حوالے سے اپنے مالیاتی نظام کو بہت تگ و دو کے بعد ایف اے ٹی ایف کی سفارشات سے ہم آہنگ کیا ہے مگر زمینی صورتحال کو بھی قابو میں رکھنا اتنا ہی اہم ہو گا جتنا کہ مالیاتی نظام کو۔ وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ انڈین وزیر خارجہ کے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھنے کے کیلئے دباو¿ ڈالنے سے متعلق بیان نے نہ صرف انڈیا کے ’اصل عزائم کو بے نقاب‘ کر دیا ہے بلکہ ’انڈیا کا ایف اے ٹی ایف میں منفی کردار‘ کے پاکستانی مو¿قف کو بھی درست ثابت کیا ہے۔ترجمان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے انڈیا کے اس منفی کردار کا معاملہ ایف اے ٹی ایف کے صدر کے سامنے اٹھانے پر بھی غور شروع کیا ہے اور فورم سے درخواست کی ہے کہ وہ انڈیا کے ایف اے ٹی ایف میں بطور 'شریک چیئر' کردار پر بھی نظر ثانی کرے۔
۔