کشمیر کی جدوجہد آزادی کی طویل تاریخ ہے جو اہل کشمیر نے اپنے خون سے لکھی ہے۔بھارت ایک طرف اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اور دوسری طرف کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو ظلم وجور،جبر و استبداد ،قتل وزارت گری سے دبانے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے۔جو اس کی جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔تقسیم ہند سے لے کر اب تک کشمیریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔جوانوں کو سر عام گولیوں سے بھونا گیا ۔عفت مآب ماوں اور بہنوں کی آبرو ریزی کی گئی تشدد اور مارپیٹ کے وہ طریقے اختیار کیے گئے کہ ابلیس بھی انگشت بدنداں رہ جائے۔لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھارت کشمیریوں کا جذبہ آزادی ٹھنڈا نہیں کر سکا۔تحریک میں دن بدن کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔کشمیری دنیا کے جس حصے میں بھی ہیں۔آزادی کی شمع جلائے ہوئے ہیں۔ان میں سے ایک توانا آواز تحریک کشمیر برطانیہ اور فہیم کیانی ہیں۔تحریک کشمیر برطانیہ ایک منظم ،مربوط اور فعال تنظیم ہے جو برطانیہ میں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔کوئی دن گزرتا ہو جب ان کی کوئی سرگرمی نہ ہو۔کبھی یوم شہدائے جموں منایا جا رہا ہے۔کبھی برطانوی پارلیمنٹ میں میں،کبھی وزیراعظم ہاوس اور کبھی چوکوں اور چوراہوں پر تحریک کشمیر اپنا وجود منوا رہی ہوتی ہے۔
بھارت کا قصاب مودی جب برطانیہ گیا تو فہیم کیانی متحرک ہوئے اور برطانیہ کے تمام علاقوں میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں کو متحرک کیا۔لوگ اتنی تعداد میں باہر نکلے کہ بھارتی قصاب کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک کشمیر برطانیہ گزشتہ 37 سال سے مصروف عمل ہے۔اور ہمارا اس سے پہلا تعارف برادرم صغیر قمر کے ذریعے ہے۔جو اس کا احوال بیان کرتے رہتے تھے۔کشمیر کی جدوجہد آزادی کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے میں صغیر قمر کا کردار مسلمہ ہے۔مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کی میزبانی سے لے کر جدوجہد آزادی کی اسٹریٹجی تک اور میڈیا کے محاذ پر الف سے ی تک صغیر قمر ہر جگہ موجود ہے۔ان کی نذر یہ شعر کرتا ہوں۔
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل ما را
بہ خال ھندویش بخشم ثمر قند و بخارا را
لیکن اس تحریک کو صحیح معنوں میں فہیم کیانی نے عروج تک پہنچایا ہے۔فہیم کیانی نوجوان قائد ہیں۔زمانہ طالب علمی سے ان سے ہماری یاد اللہ ہے۔نرم دم گفتگو گرم دم جستجو کے مصداق اپنے کام پر توجہ رکھتے ہیں۔ایک زمانہ تھا جب بات کرنا آسان تھا لیکن نائن الیون کے بعد وہی آسان انتہائی مشکل ہوا۔لیکن اس مشکل کو محنت اور لگن رکھنے والوں نے اپنی دانش مندی سے آسان بنانے کا عزم کیا۔اور آئین و قانون کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فہیم کیانی نے زبردست مبہم چلائی اور چالیس سے زائد برطانیہ کے اراکین پارلیمنٹ کو اپنا ہم نوا بنایا اور کشمیر میں خواتین پر جاری ظلم وجور ختم کرنے ایک یادداشت کے ساتھ 10 ڈاوننگ اسٹریٹ پہنچے اور برطانوی وزیراعظم کو اپنا موقف انتہائی مضبوط انداز میں پہنچایا۔عہد موجود میں جدوجہد آزادی کا استعارہ سید علی گیلانی کے داماد الطاف شاہ کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا گیا۔اس ہر تحریک کشمیر نے بھرپور ردعمل کا مظاہرہ کیا۔
اسی طرح یوم شہداءجموں کے موقع پر ڈیجیٹل مہم چلائی گئی۔اس موقع پر ایک ڈیجیٹل وین چلائی گئی اور برطانیہ میں موجود تمام سفارت خانوں کے سامنےاس کو لے جا کر بھارت کا چانکیائی چہرہ دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی گئ۔آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔اس میں مضبوط ترین پلاننگ اور سفارتی جدوجہد کی ضرورت ہے۔سفارتی محاذ میں پر کسی ایک دن یا ہفتے کی بجائے ہر وقت جدوجہد کی ضرورت ہے۔تا کہ آپ کا مقدمہ ہر وقت دنیا کے سامنے رہے۔یہ ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات کوئی آپ کے حق میں بات کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس معلومات نہیں ہوتیں۔اعدادوشمار نہیں ہوتے اور یوں آپ اپنے ایک حامی کی آواز سے محروم ہو جاتے ہیں۔بھارت اس میں کس حد تک فعال اور تیز ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پاکستان میں پاکستان میں سعودی عرب کے سابق سفیر جناب عبداللہ الزھرانی نے بتایا کہ وہ جب کویت میں سعودی عرب کے سفیر تھے تو پانچ فروری کے موقع پر بھارت کے سفیر مقیم کویت نے بھرپور مہم چلائی کہ پاکستان سفارت خانہ 5 فروری کو جو یوم یکجہتی کشمیر کا پروگرام منعقد ہو رہا ہے ۔سفراءاس میں نہ جائیں۔باوجود اس کے کہ وہ جانتا تھا کہ میں ضرور اس تقریب میں جاوں گا ۔اس کے باوجود وہ وقت لے کر میرے گھر آیا۔اگر چہ میری گفتگو کے بعد وہ مجھے اپنی خواہش بیان نہ کر سکا۔لیکن اس سے آپ بھارت کی سفارت کاری کی تیزی کا جائزہ لے سکتے ہیں ۔اور اس آئینہ میں پاکستان کی سفارت کاری کی کارکردگی کا بآسانی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔فہیم کیانی اور ان کے ساتھی ریاست پاکستان کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔اور بخوبی نبھا رہے ہیں۔یہ کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بھی محسن ہیں۔اور اچھی قومیں وہ ہوتی ہیں جو اپنے محسنین کو یاد رکھتی ہیں۔پاکستان حکومت ہر سال نمایاں لوگوں کو ایوارڈ دیتی ہے۔کیسے کیسے لوگوں کو ایوارڈ دیے گئے اس پر بھی بات ہو سکتی ہے لیکن سردست ہم یہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ فہیم کیانی بھی بھی ان ایورڈوں کے اصل حقداروں میں سے ہیں۔
ایک اور بڑا اہم مسئلہ اور المیہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کی وہ نسل جو گزشتہ دس بیس سالوں میں ہروان چڑھی ہے وہ جدوجہد آزادی کشمیر سے بالکل ناواقف ہیں۔ایک کثیر الجہتی وفد تشکیل دیا جائے جس میں تمام قومی جماعتوں کے رہنما ءشامل ہوں اور وہ وفد پوری دنیا کے کم از کم مسلم ممالک کو دورہ کرے۔عوام سے ملاقاتیں کرے۔جلسے جلوس رکھے جائیں اور وہاں پر لوگوں کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا جائے۔تحریک کشمیر برطانیہ اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ہم وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس تجویز پر جلد عمل در آمد کریں۔