2024 کے عام انتخابات کیلئے میدان سج چکا ہے۔ الیکشن کے ابتدائی مرحلہ میں کاغذات نامزدگی وصول اور جمع کرانے کا سلسلہ مکمل ہو چکا اور اب تیزی سے جانچ پڑتال کا مرحلہ مکمل ہونے جا رہا ہے۔ ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف پاکستان استحکام پارٹی جماعت اسلامی جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد نے اپنے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ آفیسرز کے پاس جمع کرائے۔ ملتان کے حلقوں میں اس وقت صورتحال خاصی دلچسپ ہے کہ یہاں گیلانی قریشی اور ہاشمی خاندان میدان عمل میں آ چکے ہیں یہ روایتی خاندانی سیاست دان اس خطہ میں اپنا واضح اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے حلقہ انتخاب میں ایک بڑی تعداد انہیں ہر انتخاب میں ووٹ بھی ڈالتی ہے۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے لیے حلقہ این اے 148 سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔ اسی طرح اپنے بیٹے سید علی موسیٰ گیلانی کے لیے حلقہ این اے 151 جبکہ دوسرے بیٹے سید عبدالقادر گیلانی کے لیے حلقہ این اے 152 اسی طرح اپنے تیسرے بیٹے سید علی حیدر گیلانی کے لیے صوبائی حلقہ پی پی 213 سے الیکشن میں امیدوار بنایا ہے۔ ملتان سے ہی تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے حلقہ این اے 149 سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں گو انہیں پارٹی کی جانب سے ٹکٹ کا ابھی تک عندیہ نہیں دیا گیا تا ہم ان کا کہنا یہ ہے کہ پارٹی ٹکٹ دے یا نہ دے وہ آزاد حیثیت سے اور اپنے سادات گھرانے کو متحد کر کے اس حلقہ سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور انہیں اس حلقہ سے کامیابی مل سکتی ہے۔ اسی طرح حلقہ این اے 150 اور این اے 151 سے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی میدان میں آچکے ہیں۔انہوں نے صوبائی حلقہ پی پی 218 سے بھی اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرو ائے ہیں۔ سپریم کورٹ سے ان کی سائفر کیس میں ضمانت کے بعد جب رہائی کا وقت قریب آیا تو ایک بار پھر اڈیالہ جیل کے باہر سے انہیں پولیس نے بدسلوکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرفتار کر لیا ہے۔ انہیں نو مئی کے واقعات میں ملوث قرار دیتے ہوئے دہشتگردی کے مقدمے میں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یوں ان حلقہ جات میں انہوں نے اپنی جگہ ان دو حلقوں میں متبادل کے طور پر اپنے بیٹے سید زین حسین قریشی اور بیٹی مہر بانو قریشی کے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے ہیں۔ اسی طرح اس وقت میدان میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان کڑا مقابلہ اور مخالفت دیکھنے میں آرہی ہے۔ اگر تمام معاملات خوش اسلوبی سے انجام پاتے رہے تو الیکشن میں ان تین بڑی جماعتوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ یہاں ایک امر قابل ذکر ہے کہ گیلانی قریشی اور ہاشمی خاندان پہلے براہ راست آپس میں نبرد ازما ہوتے تھے لیکن اس مرتبہ یہ خاندان براہ راست آپس میں کہیں پر بھی ایک دوسرے کے خلاف امیدوار نہیں۔ کچھ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ گیلانی اور قریشی خاندان کے درمیان کچھ رابطہ کار دوست راز و نیاز کے امین ہیں۔ جن میں شاہ محمود قریشی کو ایک حلقے میں سپورٹ دینے اور اس کے بدلے اپنے بیٹے کے لیے دوسرے حلقے میں سپورٹ لینے کی بات کی جا رہی ہے۔ تاہم اس بات کی ابھی تک تصدیق نہیں کی۔
اسی طرح پاکستان استحکام پارٹی کے مرکزی رہنما جہانگیر خان ترین نے بھی لودھراں کے ساتھ ساتھ ملتان کے قومی حلقہ این اے 149 سے بھی اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرادئے ہیں جس کے بعد اس حلقہ میں مسلم لیگ ن کے شیخ طارق رشید، پی ٹی آئی کے امیدوار ملک عامر ڈوگر اور جہانگیر ترین کے درمیان بھی دلچسپ مقابلہ دیکھنے میں آسکتا ہے۔ اس مرتبہ متعدد امیدواروں نے ا لیکشن سے قبل اپنی سیاسی وابستگیاں بھی تبدیل کرلی ہیں ملتان سے ڈاکٹر اختر ملک، جاوید انصاری ، ملک احمد حسن ڈیہٹر اور رانا قاسم نون اس بار پی ٹی آئی کی بجائے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اور مسلم لیگ ن میں انکی ٹکٹ کنفرمیشن بھی ہاٹ ٹاپک ہے اسی طرح پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے ملک واصف راں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنا نیا مسکن بنایا ہے۔ مزید برآں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے مبینہ رکاوٹیں ڈالی جانے پر متعدد امیدواروں نے بذریعہ ہائیکورٹ اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے ہیں۔ اس وقت تک ملتان کے چھ قومی اور 12 صوبائی حلقوں میں کل 587 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
ملتان ضلع میں 10 ہزار سے زائد اساتذہ کی ڈیوٹیاں تفویض کر دی گئی ہیں اور اس حوالے سے ان اساتذہ کی ٹریننگ کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس کیلئے محکمہ تعلیم کے علاوہ مختلف محکموں کا انتخاب کیا ہے ،اسی طرح الیکشن کمیشن کی جانب سے سرکاری گاڑیاں بھی تحویل میں لی جا رہی ہیں اور یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کئی سرکاری افسران نے اپنی گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں تبدیل کر رہے ہیں۔