ملک بھر میں الیکشن کی بازگشت بڑھنے سے امیدواروں کے دلوں کی دھڑکنیں بھی تیز ہوگئیں ہیں۔دیکھا جائے تو اس وقت ایک جماعت کے امیدواروں کو چھوڑ کر باقی سبھی جماعتوں مسلم لیگ ن ،پاکستان پیپلز پارٹی ،جے یو آئی ف ،باپ ،ایم کیو ایم ،مسلم لیگ ق ،تحریک استحکام پارٹی کے امیدوار ایک کھٹن امتحان سے گزر رہے ہیں کہ انہیں عوام کی جانب سے کن سوالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اس حوالے سے ان سب کی تیاریاں ایک امتحان سے کم نہیں ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کیلئے پولنگ اسٹیشنز کا فائنل ڈرافٹ بھی تیار کرلیا ہے جس کے مطابق ملک بھر میں 92 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز بنائے جائیں گے۔ پولنگ اسکیم 8 فروری سے 15 روز قبل جاری کی جائے گی۔عام انتخابات کے لیے پنجاب میں 438 قومی و صوبائی حلقوں میں 51 ہزار 821 پولنگ اسٹیشنز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ سندھ کی مجموعی 191 نشستوں کیلئے 19 ہزار 236 پولنگ اسٹیشنز ہوں گے بلوچستان میں 66 نشستوں پر انتخاب کیلئے 5 ہزار 15 پولنگ اسٹیشنز قائم ہوں گے، خیبر پختونخواہ کی 160 نشستوں کے لئے 15 ہزار 737 پولنگ اسٹیشن بنیں گے جبکہ اسلام آباد کے 3 حلقوں کے لئے 990 پولنگ اسٹیشنز قائم کئے جائیں گے۔ان سب انتظامات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ایک حقیقت کہ عوامی مسائل کا حل صاف شفاف انتخابات میں ہے اس کے لیے سبھی جماعتوں کو مل بیٹھنا ہی ہوگا جہاں تک جماعتوں اور ان کے اتحادیوں کے اختلافات کی بات ہے تو اس کی خبریں وقتا فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔ استحکام پاکستان نے مسلم لیگ ن سے قریب ہونے کی کوشش کی اور پنجاب میں ایک بڑا کوٹہ ان سے مانگ لیا مگر میاں نواز شریف نے انہیں حامی نہیں بھری۔ اب دوسری اطلاع یہ ہے کہ مسلم لیگ ( ن ) اور جمعیت علماء اسلام ( ف ) میں سیٹ ایڈجسمنٹ پر بھی ڈیڈ لاک برقرار ہے ، سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے خیبر پختونخوا ( کے پی کے ) میں سیٹ ایڈجسمنٹ سے قبل پنجاب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نو سیٹیں مانگ لیں۔جے یو آئی رہنماؤں نے ( ن ) لیگی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میںجن سیٹوں کا مطالبہ کیا ہے نون لیگ نے باہمی گفتگو میں اس حوالے سے حتمی جواب نہیں دیا۔مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف کے درمیان ملاقات کے بعد مذکورہ سیٹوں کی ایڈجسمنٹ کیلئے پیغام میں کہا تھا کہ کے پی کے میں سیٹ ایڈجسمنٹ کے لئے پہلے پنجاب کا فارمولا طے کیا جائے۔ادھر کے پی کے میں ن لیگ کی صوبائی اور جے یو آئی کی قیادت بھی پنجاب کے فیصلے کی منتظر ہے جبکہ نواز شریف نے تاحال کسی جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کا اشارہ نہیں دیا۔
ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ ن کی پارلیمانی بورڈ کا روزانہ کی بنیاد پر اجلاس جاری ہے جس میں نواز شریف ،شہباز شریف ،مریم نواز ،حمزہ شہباز سمیت پارٹی کی دیگر قیادت پارٹی ٹکٹ امیدواروںکے انٹرویوزکررہی ہے۔ پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں کو دیکھ کر تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ ن لیگ کے سبھی امیدوار بہت مضبوط ہیں اور انہیں کسی قسم کے اتحادی کی ضرورت نہیں ہے جبکہ ان کی سبھی لیڈرشپ کو پتا ہے کہ اس بار حالات ماضی کے عام انتخابات کے حالات سے بہت مختلف ہیں۔انہیں بخوبی معلوم ہے کہ عوامی سطح پر انہیں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا وہ جواب کیسے دیںگے اور کس طرح عوام کو مطمئن کریں گے ان کے پاس کوئی فارمولا نہیں ہے اور نہ ہی ان کی قیادت کے پاس عوامی سوالات کا جواب ہے۔کیونکہ عوام مہنگائی کی چکی میں اتنی پھنس چکی ہے کہ وہ اب سیاسی جماعتوں کے مخصوص نعروں سے مطمئن نہیں ہوگی۔دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر و سابق وزیراعظم شہباز شریف کی تقاریر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم منتخب کروانے کی ضد پر اڑے ہوئے ہیں ان کا خیال ہے کہ نواز شریف دوبارہ منتخب ہو کرملک کی ترقی و خوشحالی کا سفر دوبارہ وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے ٹوٹا تھا۔ پارلیمانی بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ن لیگ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی واپسی کے بعد پارٹی میں نیا جوش وولولہ آیا ہے۔ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں نوازشریف نے ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کا فیصلہ کیا، انہیں امریکی صدر نے5ارب ڈالر کی پیش کش کی مگر ملک کی خاطر اللہ کے فضل سے نوازشریف نے ایٹمی صلاحیت پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔بظاہر تو شہباز شریف کی تقاریر جوش ولولے سے بھری ہوتی ہے اور وہ اپنے مخصوص انداز میں سامعین کو محظوظ بھی کرتے ہیں مگر اب سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنی ماضی کی کامیابیوں کے بل بوتے پر دوہزار چوبیس کا انتخابات لڑسکتے ہیں یا نہیں ؟. اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا مگر اس وقت الیکشن مہم میںعوام کی نبض شناسی کی ضرورت ہے ۔