سرکاری یونیورسٹیاں مافیاز کے نشانے پر  

پاکستان میں کل261 جامعات اورڈگری جاری کرنے والے ادارے ہیں جن میں 154سرکاری اور107پرائیویٹ ہیں جبکہ کل128 کیمپس ہیں،   83سرکاری اور 45 نجی جامعات کے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ایک بہت منافع بخش کاروبارکی شکل اختیار کر گیا ہے۔ کاروبار کی بالکل اجازت ہونی چاہیے اور ہے مگر تعلیم کو کاروبار بنانے کی کوئی حد مقرر ہونی چاہیے ۔ شعبۂ تعلیم اگر مشن زیادہ رہے اور کاروبار کم تو ہی بہتر ہے۔ ہم نے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی تباہی کے بُرے تجربے سے کچھ نہیں سیکھا ۔ ہم سرکاری سکولوں میں پڑھے ہیں مگر اپنے بچوں کو پبلک سیکٹر سکولوں میں نہیں بھیجا، وجہ سب کو معلوم ہے۔ اب سرکاری سکولوں کا معیاروہ نہیں رہا۔ داخلے کے لیے جو لمبی قطاریں سرکاری اسکولوں کے باہر ہوا کرتی تھیں اب وہ بڑے پرائیویٹ اسکولوںکے در پر نظر آتی ہیں۔
کالجوں کے معاملے میں کیا ہوا ؟ جو اساتذہ کالج میں کلاس شاذ و نادر ہی لیا کرتے تھے وہ اکیڈمی اور پرائیویٹ کالج میں باقاعدگی سے نظر آیا کرتے تھے۔ کالج طلبہ اور اساتذہ سیاست کاگڑھ بنے رہے۔ یہاں تک کہ والدین اس بات کے قائل ہوگئے کہ تمام سرکاری کالج، ایک آدھ کو چھوڑکر، اس قابل نہیں کہ بچوں کو وہاں بھیجا جائے، لہٰذا بہتر ہے کہ امتحانی داخلہ سرکاری کالج کی طرف سے جائے اور بچہ پرائیویٹ پڑھے۔ کالجوں پر سیاست اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے جو  اثرات مرتب ہوئے، بعد میں ہونے والی اصلاحات کے باوجود وہ آج تک زائل نہیں ہوسکے۔ اس سے پرائیویٹ سیکٹر کے کالجوں کو بہت فائدہ ہوا اور نجی تعلیمی صنعت کو بے پناہ مالی فائدہ۔ کالجوں کی تباہی کے بعد ملک بھر کی پبلک یونیورسٹیاں نشانے پر ہیں۔ وفاقی اور صوبائی ہائرایجوکیشن کمیشنز کی نہ تو آپس میں بنتی ہے اور نہ ہی تیسرے اسٹیک ہولڈر یعنی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ (ایچ ای ڈی) سے۔ اس کا پورا فائدہ کارپوریٹ مافیاز اور مفاد پرست گروہ اٹھا رہے ہیں۔ نشانہ سرکاری جامعات کے اندر سے بھی سادھا گیا ہے۔ فیسیں بتدریج بڑھاتے ہوئے اس سطح تک لے آئی گئی ہیں کہ متوسط اور بالخصوص نچلے متوسط طبقے کے لیے تعلیم جاری رکھنا ناممکن ہوتا چلا جا رہا ہے، وجہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی گرانٹ میں کمی اور ٹیوشن فیس میں اضافہ بتائی جاتی ہیں۔ وجہ جو بھی ہو طالب علم اور غریب والدین پس رہے ہیں۔
دوسری جانب، تعلیمی معیار میں کمی آرہی ہے، سرکاری جامعات کے معیار کو بہتر بنانے والے شعبے (Quality Enhancement Cells - QECs) بند پڑے ہیں، لہٰذا اساتذہ کے معیارِ تدریس کو جانچنے کا عمل اکثر جامعات میں برسوں سے نہیں ہو رہا ہے۔ جہاں یہ ہو بھی رہا ہے وہاں صرف جز وقتی اساتذہ سے متعلق رائے لی جاتی ہے۔ پرائیویٹ جامعات میں اساتذہ کے بارے میں فیڈبیک فرض سمجھ کرلیا جاتا ہے، اور کیوں نہ ہو پیسے دینے ہیں تو حساب تو لازمی ہو گا مگر اکثرسرکاری جامعات کے ’سیاسی وائس چانسلرز‘ اس قابل نہیں کہ وہ اساتذہ سے متعلق فیڈبیک لینے کی جرأت کرسکیں۔ اگر پروفیسر چاہے تو پورا کورس پڑھائے ورنہ جتنا پڑھا دیا ہے اس میں سے ہی امتحان ہو گا، نتیجہ اس کا یہ ہے کہ اسٹوڈنٹس بھی خوش اور پروفیسر بھی۔ ’سر، اس با ر امتحان نہ لیں بلکہ اسائنمنٹ دے دیں۔‘ ’کیا ایسا ممکن ہے؟‘ ’جی سر، دیگر اساتذہ بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔‘ ’چلیں ٹھیک ہے۔‘ یہ پالیسی بھی عام ہے۔ اساتذہ اور طلبہ کی تساہل پسندی نے معیا رپست کر دیا ہے۔ معیار گرنے کی وجہ سے ایم اے کی ڈگری بی اے اور ایم فل کی ایم اے کے برابر ہو چکی ہے ۔ پی ایچ ڈی ڈگریوں کی تعداد پر توجہ ہے، معیار پر نہیں۔ انتظامیہ اور کیو ای سی تو ویسے ہی سوئے پڑے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔
انتظامی معاملات تو اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہو چکے ہے۔ صوبہ پنجاب کی 24 جامعات بغیر وائس چانسلروں کے کام کر رہی ہیں۔ یہاں کی سب سے بڑی پنجاب یونیورسٹی ڈیڑھ سال سے بغیر وائس چانسلر کے چل رہی ہے۔ دوسرے صوبوں میں بھی یہی حال ہے۔ صرف پشاور میں 12جامعات بغیر وی سی کے ہیں۔ ہماری حکومت کی سنجیدگی اور ترجیحات کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے۔ جامعات کے اندر سے اور اساتذہ فیڈریشن کی طرف سے شور اٹھنے پر وفاقی ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمدنے وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے اجازت حاصل کرنے کے لیے تگ دو کی۔ اجازت مل گئی اور انھوں نے تمام صوبوں کے گورنروںیعنی جامعات کے چانسلروں کو خطوط بھی لکھ دیے کہ وائس چانسلر سرچ کمیٹیوں کی مدد سے وی سیز لگائے جائیں۔ لیکن اس کار ِسرکار کی راہ میں حائل ایک عدالتی سٹے آرڈر جو کہ بہاولپور میں لیا گیا تھا، اس کو ختم کرانے کے لیے حکومت نے اس سنجیدگی سے کام نہیں لیا جو درکار تھی۔ وی سیز کی تقرری نہیں ہوسکی یہ بات تو سمجھ آگئی مگر ڈینز بھی تعینات نہ ہو سکے، یہ بات سمجھ سے باہرہے۔ نئی حکومت آنے تک جامعات، طلبہ اور اساتذہ حالات کے رحم وکرم پر ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اور حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ تعلیم ہماری اولین ترجیح ہے مگر حقیقت میں یہ صرف زبانی خرچ ہے ۔

ای پیپر دی نیشن