پسِ آئینہ پلاننگ 

کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ سیف الرحمن کی فول پروف پلاننگ فیل ہو جائے گی اور پلاننگ فیل بھی نہیں ہوئی تھی۔ کامیابی کے ساتھ ہمکنار ہونے کے بعد لیک ہو گئی۔ سارے ادارے میاں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت کے نیچے1999ء کے مشرف کے ’کو‘کے دن تک جنبش ابرو کے منتظر ہواکرتے تھے۔ پنجاب میں شہباز شریف کی مضبوط حکمرانی کا جادو سر چڑھ کو بولتا تھا۔ مسلم لیگ نواز سندھ میں بھی غوث علی شاہ کی وزارت اعلیٰ قائم کیے ہوئے تھی۔ کوٹیکنا کیس سیف الرحمن کے احتساب بیوروکے ایما پر جسٹس ملک قیوم کی احتساب عدالت میں چلا۔ سیف الرحمن نے فون پر پیغام دیا کہ سات سال قید کی سزا سنا دی جائے۔ ملک صاحب نے کہا یہ تو زیادہ سے زیادہ سزا ہے۔ پانچ سال قید کر دیں گے۔ کس کو؟ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو۔ ساتھ پرزور اور باصرار مطالبہ کہ سزا کل ہی ہر صورت سنا دی جائے۔ سات سال پر زیادہ زور نہیں دیا گیا۔اور پھر ایمانداری سے کیے عہد و پیمان کے مطابق سزا سنا دی گئی۔ بے نظیر بھٹو دبئی میں تھیں۔ زرداری صاحب شایدپہلے ہی جیل میں تھے۔ بے نظیر بھٹو کی سیاست منصوبہ سازوں نے گول کر دی تھی۔ دوسرا کوئی حریف تھا نہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف ابھی تازہ تازہ زچگی کے عمل سے گزری تھی۔ اس سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔
جس دوران یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔ فون پر ہدایات وعدہ اور وعدوں پر عمل، عین اسی دوران ملک صاحب کے گھر کے دروازے پر ٹینٹ میں وہ کچھ ہو رہا تھا جس نے چند ماہ بعد بھونچال اٹھا دیا۔ آئی بی جو وزیر اعظم کو جوابدہ اور ان کے ماتحت ادارہ ہے۔ اس کا ڈپٹی ڈائریکٹر اس ٹینٹ میں سنتری کی ڈیوٹی پر لگایا گیا تھا۔ اپنی شفٹ سپاہی کی یونیفارم میں بھگتاتا رہا۔ اس کے بعد وہی کام کرتا جو اسے سونپا گیا تھا۔ ملک صاحب کے فون ٹیپ ہوتے۔ سیف الرحمن ، چھوٹے میاں صاحب اور جس کا بھی فون آتا جاتا سب کی ریکارڑنگ۔ ریکارڈنگ کیوں کی جاتی تھی؟ سرِ دست اس کا جواب دستیاب نہیں ہے۔ ان دنوں ٹیپ ریکارڈر ہوا کرتے تھے۔ فرض کا تقاضا تھا کہ ریکارڈنگ جہاں پہنچائی جانی مقصود تھی وہیں پہنچائی جاتی مگر یہ بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئی۔ ریکارڈنگ کرنے والے کا مؤقف ہے کہ جب اس نے یہ ظلم ہوتے دیکھا کہ جرم پر نہیں محض ذاتیات کی وجہ سے سزا دی جا رہی ہے۔ حکومت ڈکٹیٹ کر رہی ہے تو اس نے بے نظیر بھٹو تک بات پہنچانے کا سوچا۔ اس مقصد کے لیے اس نوجوان افسر نے اپنے دوست کا انتخاب کیا۔ دونوں نے کئی گھنٹوں کی آڈیوز میں سے ڈیڑھ گھنٹے کی آڈیوز نکالیں جو دبئی میں بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئیں۔ اقبال حسین لکھویرا دبئی میں بے نظیر بھٹو کے دستِ راست ہونے کے ساتھ ان کی تقاریر بھی لکھا کرتے تھے۔ پاکستان سے رائے احسان یہ کیسٹ لے کر وہاں گئے تھے۔ لکھویرا صاحب تک مذکورہ بالا معلومات بے نظیر کی رہائش گاہ پررائے احسان کے ذریعے براہ راست پہنچیں۔ بے نظیر بھٹو ان دنوں سزا یافتہ تھیں۔ اب پلاننگ کی گئی کہ کس طرح اس آڈیو کو استعمال کیا جائے۔ قبل ازیں ڈیڑھ گھنٹے کی جب آڈیو سنی گئی تو پن ڈراپ سائلنس تھی۔ آڈیو ختم ہوئی تو سب کے چہرے کھل اٹھے۔مبارک بادوں کا سلسلہ، جذبات امڈنے لگے۔
’میں بتاتی ہوں کیسٹ کس طرح استعمال کرنی ہے‘۔ بے نظیر نے جشن مناتے درجن کے قریب ساتھیوں کو مخاطب کیا تو پھر خاموشی چھا گئی۔ محترمہ نے لندن میں ڈیلی میل کے چیف رپورٹر سے بات کی۔ وہ خود آنے پر تیار ہوگئے۔ یہ بہت بڑی خبر تھی رائے احسان کی طرح چیف ایڈیٹر کے ویزے کا بھی بندوبست کیا گیا۔ وہ دبئی آگیا۔ اس کے سامنے پوری تفصیل رکھی گئی۔ اس نے سٹوری شائع کرنے کی حامی بھری مگر اپنی شرائط پر۔ اس نے کہامیرے سامنے ان لوگوں کو فون کریں۔ ان کی کال ٹیپ کریں اس کا فرانزک ٹیسٹ ہوگا اگر آواز میچ کرے گی تو سٹوری شائع ہو گی۔ ایسا ہی کیا گیا۔ بے نظیر دوبار وزیر اعظم رہ چکی تھیں ان کے لیے اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے سیف الرحمن جسٹس ملک قیوم اور جو بھی تھے ان سے فون پر بات کرنا مشکل نہیں تھا۔ فرانزک ہوا اور ڈیلی میل میں آتش فشاں کا اثر رکھتی سٹوری شائع ہو گئی۔ پاکستان میں آگ لگنا ہی تھی۔ ہائیکورٹ سے فیصلہ فائنل ہو کر سپریم کورٹ جا چکا تھا۔ وہاں کیسٹ پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ بے نظیر بھٹو اور زرداری کو بری کر دیا گیا۔ یہ کیس جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں بینچ نے سنا تھا۔ جسٹس قیوم کو ہائیکورٹ کے جج کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ میاں نواز شریف کی حکومت ویسے ہی ختم ہو چکی تھی۔ سیف الرحمن بھی انجام کو پہنچ چکے تھے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس راشد عزیز کی گفتگو بھی ریکارڈ ہوئی تھی۔ ان کو بھی گھر جانا پڑا۔ قبل ازیں راشد عزیز لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ان کی عدالت پر بھی اسی طرح کا حملہ ہوا تھا جس طرح سپریم کورٹ میں جسٹس سجاد علی شاہ کی کورٹ پر ہو چکا تھا۔جسٹس راشد عزیز کی عدالت پر جیالے ٹوٹ پڑے تھے۔ اس حملے کا ذکر کتابوں اور تاریخ میں موجود تو ہے مگر کم ہے۔
آج تحریک انصاف کو نامساعد حالات کا سامنا ہے۔ مشکلات کے نرغے میں ہے۔ ہر پلاننگ اسی کے خلاف ’نظر آتی ہے‘ سرِ آئینہ یہی ہے مگر شاید پسِ آئینہ کچھ اور ہو۔ 9 مئی تحریک انصاف کے لیے خوف کی علامت ہے۔ اس میں ملوث ایک ایک کردار سخت سزا کا مستوجب ہے۔ عمران خان کہتے ہیں تحقیقات کرائی جائیں سرِ آئینہ بھی اور پسِ آئینہ بھی کوئی اور ہے۔ خان صاحب کا غیر جانبدارانہ تحقیقات کا جواز بھی لاجواز کر دینا چاہیے۔ جن کو یقین ہے کہ سب پی ٹی آئی کی قیادت کی باقاعدہ پلاننگ سے ہوا تو پھر تحقیقات میں دیر کیوں؟ پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس مل چکا ہے۔اسے بڑا ریلیف کہا جا رہا ہے دوسری طرف شاہ محمود قریشی کی ضمانت ہوئی، رہائی ہوئی، ساتھ ہی گرفتاری بھی ہو گئی۔کیا یہاں بھی کچھ پس آئینہ چل رہا ہے۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...