آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے دورہ امریکہ کے ثمرات! 

آرمی چیف جنرل عاصم منیر امریکی دورے پر گئے، ڈھیر ساری ملاقاتیں کرکے وطن واپس بھی آچکے ہیں۔ عوامی ، صحافتی ، دفاعی و سفارتی حلقوں میں اس کے چرچے بہت ہیں اور اس کے تجزیے بھی کئی صورتوں میں سامنے آرہے ہیں۔ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز ہو نہ ہو، لیکن فوج کا منظم ادارہ اپنی جگہ پر موجود رہتا ہے۔ جو ملکی مفاد میں ملک و قوم کی نگہبانی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ عمران حکومت نے پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کردیا تھا۔ امریکہ کو انھوں نے خاص طور پر ٹارگٹ کیا ، اور اپنی حکومت گرانے کے لیے امریکہ کو موردِ الزام ٹھہرایا کہ اس نے پاکستان میں سہولت کاروں اور میرجعفروں کی مدد سے میری حکومت کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد کا منصوبہ بنایا۔ عمران خان کی زبان کو کوئی لگام نہیں دے سکتا۔ اس کے منہ میں جو آئے ، وہ بولتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایسے اداروں میں پڑھا ہی نہیں ، جہاں اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہو۔ اس کی ساری جوانی مغربی معاشرے میں گزری۔ جہاں معاشرہ شتر بے مہار ہے ، اور کسی کی عزت کرنے کا روادار نہیں۔ عمران خان نے زبان کھولنے سے پہلے یہ بھی نہیں سوچا کہ اسی فوج نے امریکہ ، یورپ ، سعودی عرب ،امارات ، قطر اور چین تک عمران خان کے لیے سازگار فضا تیار کی اور ان ممالک سے اربوں ڈالر عمران حکومت کو دلوائے۔ بہرحال اپنے اپنے ظرف کی بات ہے ، بلاشبہ پاکستانی فوج ہر چیلنج سے نبرد آزما ہونے کی بخوبی مہارت رکھتی ہے۔ 
جنرل سید عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالی تو پاکستان کے لیے عالمی مشکلات بے شمار اور ناقابل بیان تھیں۔ وہ ایک ایک ملک میں خود گئے ، اور ان کے ساتھ پائیدار دوستی کے رشتے استوار کیے۔ امریکہ کے ساتھ بھی انھوں نے تمام گلے شکوے دور کیے ، اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے کا عہد کیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو شروع ہی سے امتحان درپیش رہے ہیں۔ بھارت نے تو ازلی دشمن کا کردار ادا کرنے کی قسم کھارکھی ہے ، چین کے دل میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ موجود ہے۔ روس نے بھی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی مدد کرنے کی کوشش کی۔ مگر امریکہ سلامتی کونسل کی ہر قرارداد کو ویٹو کی طاقت سے اڑادیتا۔
 قیام ِ پاکستان کے بعد دنیا دو دھڑوں میں تقسیم تھی ، اس وقت کی پاکستانی قیادت نے امریکی بلاک میں شمولیت کو ترجیح دی۔ امریکہ نے پاکستان میں فضائی اڈے قائم کرلئے۔ مگر بڈبیر کے فضائی اڈے سے اڑنے والے امریکی یوٹو طیارے نے سارا راز فاش کردیا۔ تب کے سوویت روس نے پاکستان کے گرد سرخ حاشیہ لگادیا ، اور 1979ء میں اپنی افواج افغانستان میں داخل کردیں ، روس کا اصل ٹارگٹ پاکستان تھا اور وہ گوادر کی گرم پانیوں کی بندرگاہ کو بہرصورت قبضے میں لینا چاہتا تھا۔ گرم پانیوں تک رسائی کے لیے سوویت یونین کی ہر حکومت بے چین رہتی تھی۔ پاکستان نے روسی ارادوں کو بھانپ کر مزاحمت کی تحریک منظم کی۔ پاکستان میں اس وقت جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت قائم تھی۔ جنھوں نے روس کے خلاف امریکہ سے مالی امداد مانگی تو جواب میں امریکہ نے ’مونگ پھلی کے برابر‘ امداد کا وعدہ کیا۔ بہرحال پاکستان نے اپنے طور پر تحریکِ مزاحمت کو منظم کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ سمیت ساری آزاد دنیا پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ یہ کامیابی یقینا جنرل ضیاء کی سٹریٹجی کی وجہ سے ملی۔ سوویت یونین روس کو لینے کے دینے پڑگئے اور اس نے بالآخرافغانستان میں ایک طویل جنگ کے بعد اپنی شکست ِ فاش کو چار و ناچار قبول کرلیا۔ عالمی سطح پر روس کی فوجی طاقت ماند پڑگئی ، پہلے تو مشرقی یورپ کے ممالک نے سوویت یونین روس کے چنگل سے جان چھڑائی ، پھر خود سوویت یونین روس کے حصے بخرے ہوگئے۔ روس کے اس حشر نشر کی وجہ سے ساری دنیا اکلوتی سپرپاور امریکہ کے زیر اثر آگئی۔ 
پاکستان پہلے ہی امریکی سامراج کو بھگت چکا تھا ، ایک وقت تھا جب صدر ایوب خان اور امریکی صدر جانسن باہم شیرو شکر تھے ، لیکن پھر وہ وقت آیا جب ایوب خان بھی بلبلا اٹھا۔ اور اس نے ایک کتاب لکھ ڈالی: ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘۔ اس کا انگلش ٹائٹل تھا: Friends, Not Masters۔  ظاہر ہے کہ ایوب خان امریکہ کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر تھا، جنرل ضیاء الحق نے جہاد افغانستان سے دنیا کا نقشہ تبدیل کردیا ،اور امریکہ واحد سپرپاور بن گیا ، لیکن امریکہ بہادر نے اس کا کوئی احسان نہیں مانا اور جنرل ضیاء الحق یا پاکستان کا کوئی شکر نہیں ادا کیا ، بلکہ الٹا بہاولپور میں جنرل ضیاء کا طیارہ کریش کرگیا ، جس میں جنرل ضیا ء متعدد فوجی افسروں اور جوانوں سمیت شہادت سے ہمکنار ہوگئے اور ان کا نام لیوا کوئی باقی نہ رہا۔ امریکہ نے اسے کسی تمغے سے نہیں نوازا۔ جنرل مشرف کے دور میں دہشت گردی کی جنگ نے دنیا کو آن لیا ، اور ہر کسی کی جان لینا شروع کردی ، پاکستان نے اس جنگ میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ 80ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں ، پاکستانی معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ لیکن امریکہ ایسا ناشکرا تھا کہ اس نے ہمیشہ ’ڈو مور‘ کا تقاضا جاری رکھا۔ جنرل مشرف کئی سنگین بیماریوں کا شکار ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ، امریکہ نے انھیں کوئی فوجی یا ملکی اعزاز دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ 
امر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ کو آج کسی ملک کی حمایت کی ضرورت نہیں۔ جبکہ ہر ملک کسی نہ کسی لحاظ سے اس کا محتاج اور دست نگر ہے۔ ایسے ملک کے ساتھ مزید دوستانہ روابط برقرار رکھنا کارِوارد ہے۔ اس مشن کی تکمیل کے لیے جنرل عاصم منیر جیسا عالی دماغ، جہاندیدہ ، صاحب ِ بصیرت رہنما درکار ہے۔ پاکستان کو اللہ نے امریکی چنگل سے نکلنے کے لیے ایک نادر موقع عطا کیا ہے اور اسے ایک محب وطن فوجی قیادت میسر آگئی ہے۔ اس کے خلاف 9 مئی جیسا شیطانی کھیل زیب نہیں دیتا۔ ہمیں اپنے اس مدبر رہنما پر فخر ہونا چاہیے۔میرا قلم ان کی کامیابیوں کے لیے ہمیشہ دعاگو رہے گا۔ 

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن