’سخنے بہ نژادِ نو‘ 

اس کالم کا عنوان علامہ اقبال کے مجموعے ’جاوید نامہ‘میں شامل آخری نظم سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس نظم کا اصل عنوان ’خطاب بہ جاوید‘ ہے جبکہ ضمنی یا ذیلی عنوان ’سخنے بہ نژادِ نو‘ (نئی نسل سے گفتگو) ہے۔ اقبال تو یقینا اس مقام پر فائز تھے کہ وہ قوم یا نوجوانوں سے خطاب کرتے اور انھیں عملی زندگی میں بہتری لانے سے متعلق کچھ نصیحتیں کرتے لیکن راقم ایسے کسی مقام پر فائز ہونے کا دعویدار ہرگز نہیں ہے۔ خیر، اقبال جیسے مقام پر نہ ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آپ دل کی بات کہنے کے حق سے محروم کردیے جائیں، اور ویسے بھی ایک مدرس کی حیثیت سے یہ راقم کی ذمہ داری ہے کہ اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اپنے پیچھے آنے والی نسل کی رہنمائی کے لیے کچھ نہ کچھ ایسی باتیں ضرور کہے جو، اس کے خیال میں، نسلِ نو کے لیے کسی نہ کسی حد تک مفید ثابت ہوسکتی ہیں، لہٰذا اس کالم میں کچھ ایسی ہی باتیں کہی گئی ہیں۔
خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آبادی کی غالب اکثریت جوان ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس غالب اکثریت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہر ممکن کوشش کر کے اس غالب اکثریت کے راستے مسدود کیے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد اس ملک کو چھوڑ کر بھاگنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں پہلا موقع ملتے ہی ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اب پیچھے پلٹ کر نہ دیکھا جائے۔ یقینا اس حوالے سے ایسے ملک بھی کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کررہے ہیں جو پاکستان کو پھلتا پھولتا یا ترقی کرتا اور مستحکم ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے لیکن مخالف نے تو ظاہر ہے یہی سب کرنا ہوتا ہے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ ہم خود کچھ مثبت کررہے ہیں یا نہیں، یا جو کچھ کررہے ہیں اس کے ملک اور معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
یکے بعد دیگرے تشکیل پانے والی حکومتیں اور اس ملک کی اہم سیاسی جماعتیں تعلیم کو کتنی اہمیت دیتی ہیں، یہ ایک کھلا راز ہے۔ پرائمری تعلیم جسے دنیا بھر میں سب سے اہم سمجھا جاتا ہے، ہمارے ہاں اسے سرے سے توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا، نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ بنیاد ہی غلط رکھ دی جاتی ہے، لہٰذا عمارت کے ٹھیک کھڑے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہی بات جو ضرب المثل کا درجہ حاصل کرنے والے اس مشہور فارسی شعر میں کہی گئی ہے:
خشتِ اول چون نہد معمار کج
تا ثریا می روَد دیوار کج
(جب معمار نے پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دی تو پھر چاہے آسمان تک چلے جائیں دیوار ٹیڑھی ہی رہے گی۔)
اسی سے یاد آیا کہ اس مفہوم کی ایک بات فارسی کے مشہور شاعر صائب تبریزی نے بھی کہی ہوئی ہے جو کچھ یوں ہے:
چون گذارد خشتِ اول بر زمین معمار کج
گر رساند بر فلک، باشد ہمان دیوار کج
خیر، بات ہورہی تھی نئی نسل کی جسے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی توجہ کا مرکز ہونا تو چاہیے لیکن ہے نہیں۔ پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک جن سنگین نوعیت کے مسائل میں گھرا ہوا ہے ان کو اگر ہم واقعی مستقل بنیادوں پر حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اہمیت دینا ہوگی کیونکہ ہم اس بات کو قبول کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ آنے والے زمانے کی زمام انھی کے ہاتھوں میں ہوگی اور ہم آج انھیں جیسا بنارہے ہیں کل وہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد ملک اور معاشرے کو اسی کے مطابق چلائیں گے۔ اگر ہم ایک نسل کے لیے بیس پچیس برس کا دورانیہ مقرر کر لیں تو پاکستان بننے کے بعد اب چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھلی تین نسلوں کو جیسا بنایا گیا تھا اسی کی وجہ سے آج پاکستان اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ اقوامِ عالم میں ہماری حیثیت بھکاریوں جیسی ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملک کے احوال پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی نوجوان نسل کو نہ صرف اہمیت دی بلکہ ان کی صلاحیتوں کو نکھارتے ہوئے انھیں بھرپور مواقع فراہم کیے کہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں، اور پھر اس نوجوان نسل نے اپنے ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ یہی فارمولا ہمارے لیے بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اسے بروئے کار لانے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم اس فارمولے کو توجہ کے لائق ہی نہیں سمجھتے۔ اسی لیے نہ صرف ہمارے مسائل بڑھتے جاتے ہیں بلکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی ملک اور معاشرے سے بدظن ہوتی جاتی ہے کیونکہ انھیں ایسا لگتا ہے، اور بالکل درست لگتا ہے، کہ نہ تو ان کی صلاحیتوں اور ہنروں کی کوئی قدر کی جارہی ہے اور نہ ہی انھیں ایسے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں جن کی مدد سے وہ خود کو منوا سکیں۔
اب آخر میں اگر ’سخنے بہ نژادِ نو‘ کی طرف آیا جائے تو نوجوانوں سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑھنے کے لیے کوشش جاری رکھیں تو وہ اپنے لیے ایک جہانِ تازہ یا نئی دنیا تعمیر کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ یہ نئی دنیا صرف ان کی انفرادی ضرورت نہیں ہے بلکہ جس گروہ کا وہ حصہ ہیں اس کے اجتماعی مفادات کا تحفظ بھی اسی کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے۔ چند روز پہلے راقم نے اپنے بی ایس کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو واٹس ایپ کے ذریعے نئے سال کے لیے ایک نصیحت کی تھی، کالم کے آخر میں وہ پیغام تمام نوجوانوں کے لیے نقل کیا جارہا ہے لیکن یہ کوئی آفاقی پیغام نہیں، لہٰذا ہر کوئی اپنی صورتحال کے مطابق اس میں جیسے چاہے تبدیلی کرسکتا ہے مگر بنیادی بات وہی رہے گی کہ مقصد اپنی ذات کی اصلاح ہونا چاہیے جو خود پر جبر کر کے ہی ہوسکتی ہے۔
’’آئندہ سال کے لیے اپنے لیے اہداف مقرر کرو اور ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر جائزہ لیتے رہو کہ کون سا ہدف کس حد تک پورا ہوا ہے۔ بارہ مہینے کے لیے کتابیں طے کر لو کہ کون کون سی پڑھنی ہیں، ایک فہرست بنا لو اور پھر چاہے دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے، اس ہدف کو پورا کرو۔ اردو اور انگریزی لکھنے اور بولنے اور ترجمے کی مہارتوں کو بہتر بناؤ۔ 2025ء کے پہلے دن خود کو ایک نئے شخص بن کر ملو جو نوکری یا ترقی کے لیے دوسروں کا محتاج نہ ہو بلکہ اتنا با اعتماد ہو کہ اپنا راستہ خود بنا سکے۔ اگر واقعی اپنے اور اپنی آئندہ نسل کے مستقبل کے لیے سنجیدہ ہو تو یہ ایک سال خود پر جبر کر کے اپنے طے کردہ اہداف پورے کرو اور پھر زندگی بھر اس ایک سال کی کمائی کھاؤ ورنہ دوسروں کے دست نگر بن کر خود بھی زندگی گزارو اور اپنی آئندہ نسل کو بھی ایک غیر یقینی مستقبل کی نذر کردو۔ انتخاب تمھارا ہے کہ کیا کرنا ہے!‘‘
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن