وقت آگیا ہے سب مل کر بیٹھیں اور ملکی شگاف پُر کریں، خواجہ آصف
سیالکوٹیے خواجہ صاحب ٹھوک بجا کر بات کرتے ہیں لگی لپٹی نہیں رکھتے، کسی کو اچھی لگے یا بری لگے۔ جو بات کر دیتے ہیں اس پر قائم رہتے ہیں۔ پارٹی پالیسی سے کرنا پڑے تو اختلاف کر دیتے ہیں مگر ایک ڈھنگ اور سلیقے سے، اختلافات کے کپڑے سر میدان نہیں دھوتے۔ پرویز مشرف کے خلاف بولتے تو خوب بولتے تھے۔ کسی نے اس دور کا بیان اس وقت چلا دیا جب مسلم لیگ (ن) عمران خان کی اپوزیشن میں تھی۔ اس جوشیلے بیان میں پرویز مشرف کا نام نہیں لیاگیا تھا۔ خواجہ صاحب نے بیان کی وضاحت کی جب یہ تقریر کی تھی اس وقت میرے بال کالے تھے اب سفید ہیں۔ وضاحت یہ کہہ کر دشمنوں نے مسترد کر دی کہ صاحب کالے بالوں کی بات نہ کریں دل کی بات کریں۔
مسلم لیگ 2008 ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کی کابینہ کا بھی حصہ بنی تھی۔ خواجہ صاحب کا نامِ نامی بھی وزرا کی فہرست میں شامل تھابلکہ سرفہرست تھا۔ انھوں نے پارٹی کو آگاہ کر دیا کہ وہ مشرف سے حلف نہیں لینا چاہتے۔ خواجہ صاحب سب کے مل بیٹھنے کی بات کرتے ہیں سب میں اگر تحریک انصاف شامل ہے تو یہ پہلا موقع ہو گا کہ اپنے کہے پر قائم نہ رہ سکیں۔ سیاسی کلچر کو ان سے زیادہ کون سمجھتا اور جانتا ہے۔ فرماتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف بیان دینا الیکشن کا کلچرہے جسے لوگ بعد میں بھول جاتے ہیں۔ مخالفت میں بیان دینا کوئی منت مانی ہوتی ہے یا اس کے بغیر ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے۔ آپ اپنی بانسری حریف اپنی بین بجائے۔ خواجہ صاحب نے میاں نواز شریف سے قومی اسمبلی میں کہا تھا میاں صاحب دباؤ میں نہیں آنا لوگ پانامہ وغیرہ بھول جائیں گے۔ لوگوں کو تو پاناما سے کوئی سروکار نہیں تھا جن کو تھا انھوں نے میاں صاحب کو رول دیا پھر خود بھی رُل گئے۔
جہلم سے امیدواروں کے 15 تجویز کنندہ اور تائید کنندہ گرفتار
گرفتار ہونے والوں میں فواد چودھری کے تائید کنندگان بھی شامل ہیں۔ جب پتہ ہے کہ کسی وقت بھی بے وقت کا راگ چھڑ سکتا ہے اور راگ بھی ایسے چھڑتا ہے جیسے شہد کی مکھیوں کو یا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا جائے۔ اوّل تو تجویز یا تائید کنندہ بننے کا شوق ہی نہ پا لیں اگر بننا ہی ہے تو چودھری صاحب کی طرح دوڑنے کی تیاری کے ساتھ پریکٹس بھی کرنی تھی۔ چودھری صاحب نے کیسی دوڑ لگائی اور سیدھے جج صاحب کے روبرو ہو کر رْکے تھے۔ پولیس والوں کے بھاگتے بھاگتے ’کھلیاں‘ پڑ گئی تھیں مگر چودھری زیادہ تیز نکلا اور ساری توانائی صرف کر دی۔ اس کے بعد دوڑنے جوگے نہ رہے تو گرفتاری کا خطرہ ٹالنے کے لیے ٹویٹ کردیا کہ نادانی میں جس پارٹی میں گیاتھا اب دانش مندی سے نکل آیا ہوں۔ ان کے نقشِ قدم پر بڑے بڑے لیڈر چلے اور دو پارٹیاں مزید تحریک انصاف سے جنم پذیر ہو گئیں۔ آئی پی پی اور پارلیمنٹرین ان دونوں کے اصل بانی چودھری صاحب ہیں کوئی مانے یا نہ مانے۔
پی ٹی آئی سے لاتعلق ہو کر سکھ کا سانس لیا مگر دکھ نے ان کا کھرا ناپ لیا تھا کہ وہ ناکردہ خطاؤں میں دھر لیے گئے اور اب کنندگان بھی ’دھرو کے‘ جا رہے ہیں۔ پولیس نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ کس جرم میں پکڑا گیا؟ جواب آتاہے ’ایویں ای‘۔ تجویز کنندہ سے پوچھا بھاگا کیوں نہیں؟ اس کا عذر ہے گوڈے درد کرتے ہیں۔ تائید کنندہ اسی سوال کے جواب میں کہتا ہے ملازم جوتی پالش کرانے کے لیے لے گیا تھا۔
موسم سرما کی چھٹیوں میں ریلوے کی آمدن میں ریکارڈ اضافہ
اسی خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ35 دنوں میں ریلوے کو نو ارب 76 کروڑ روپے سے زائد کی آمدنی ہوئی۔موسم سرما کی چھٹیاں تودس بارہ ہوئی تھیں یہ اعداد و شمار 35 دنوں کے جاری کیے گئے ہیں شاید بکنگ کچھ روز پہلے شروع ہو جاتی ہے، لہٰذا یہ آمدنی انھی دنوں کی ہے۔کنفرم ہو گیا کہ چھٹیاں منانے والوں نے ریلوے پر شوق و ذوق کے ساتھ سفر کیا۔ اگر خرچہ نہیں ہوا تو پھر موجاں ای موجاں۔بڑا زبردست نسخہ ریلوے کے ہاتھ آ گیا۔اگر پورا سال چھٹیاں کر دی جائیں تو پھر اندازہ کریں کہ ریلوے کی آمدنی آسمان تک کیوں نہیں پہنچے گی۔ایسا ہی نسخہ ہم بجلی کی بچت کے حوالے سے بھی آزما چکے ہیں ہفتہ وار دو چھٹیاں کر کے۔ اس سے پتا چلا کہ روزانہ ہزاروں میگا واٹ کی بچت ہو رہی ہے۔اگر پورے ہفتے کی چھٹیاں کر دی جاتیں تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان بھی مٹ جاتا۔پی آئی اے اور سٹیل مل بھی خسارے میں جا رہی ہیں۔ اِدھر بھی کوئی ایسا ہی نسخہ آزما لینا چاہیے۔دریافتیں ایجادات اور اختراعات کوئی ہم سے سیکھے۔پاکستان میں کیسے کیسے نابغے آئے انھوں نے اپنے گُرآزمائے تجربات کیے۔قوم کو مستفید کیا۔ گھڑیوں کا ٹائم آگے پیچھے کرکے ترقی کی معراج پر کمند ڈالنے کی کوشش کی گئی۔یہ تجربہ شایددو بار کیا گیا۔ایک بار بے نظیر بھٹو نے دوسری بار جنرل مشرف نے۔ کہا گیا گھڑیوں کی سوئیاں آگے پیچھے کرنے سے سورج کی روشنی سے زیادہ دیر تک استفادہ کیا جا سکتا ہے۔لوگ پرانا ٹائم اور نیا ٹائم کے تحت شیڈول بنایا کرتے تھے۔بے نظیر بھٹو تو چند قدم مزید بھی آگے جاتے ہوئے گوشت کا ناغہ منگل بدھ کی بجائے متبادل دنوں تک لے گئی تھیں۔ہمارے حکمرانوں کو ایسی پٹیاں نہ جانے کون پڑھاتا ہے۔شاید شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار۔یہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار کون ہوتا ہے؟ شہنشاہ ایران ایسے ہی وفاداروں کے جھرمٹ میں تشریف فرما تھے۔انہوں نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھا معاً ان کی نظر سامنے کلاک پر پڑی۔ شہنشاہ کی گھڑی پانچ منٹ پیچھے تھی۔ وہ ناب گھما کر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی گھڑی کا ٹائم سیٹ کرنے لگے۔اسی دوران ایک درباری نے کھڑے ہوتے ہوئے ہاتھ باندھ کر عرض کیا، جناب شہنشاہ عالم آپ زحمت نہ کیجیے ہم اپنی گھڑیاں پانچ منٹ آگے کر لیتے ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔پورے ملک میں ٹائم پانچ منٹ آگے کر دیا گیا۔
ائیر پورٹ کو اڑا دینے کی دھمکی دینے پر ماڈل گرفتار
یہ میگھا شرما ہیں، بھارتی ماڈل ہیں۔ وہ ڈیرہ دون ائیر پورٹ پر اپنے پرس کی تلاشی دینے سے سیکیورٹی اہلکارہ کے اصرارپر انکار کر رہی تھیں۔ اس نے کہا کہ تلاشی نہ لو زیادہ بک بک کی تو ائیر پورٹ کواڑا دوں گی۔ اس نے کیا ڈیرہ دون کا ائیر پورٹ اڑا دینا تھا یا کوئی اور، ڈیرہ دون میں متحدہ ہندوستان کی پہلی فوجی اکیڈمی بنائی گئی تھی، اس سے قبل سندھر سٹ برطانیہ میں افسر تربیت حاصل کرتے تھے۔ میگھا نے ہو سکتا ہے، ایسے ہی دھمکی دی ہو جیسے عموماً لڑائی جھگڑے میں کھمب ٹھپوانے والا نیویں نیویں ہو کر نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا ہے ’نمٹ لوں گا‘۔ بعد میں اس نے نمٹنا ہوتا ہے۔ وقوعہ پر اس سے نمٹا جا چکا ہوتا ہے۔ اس ماڈل نے بھی ایسے ہی نمٹنا ہوگا۔ ائیر پورٹ کو اڑا دینے کا مطلب تباہ کر دینا ہی نہیں ہو سکتا۔ عملیات سے ائیر پورٹ کو ہوا میں اْڑایا جا سکتا ہے، اڑا کر پھر واپس۔ اس نے کہا بم سے اڑا دوں گی۔ظاہر ہے وہ فوری طور بم تو نہیں چلا سکتی تھی۔ ا س نے اپنی پلاننگ کا اظہار کیا جس سے اس کی تباہ کاری اور تابکاری کا منصوبہ لیک گیا۔ بم کا سنتے ہی تھانیدارنی کے’حواس‘ خطا ہو گئے ہوں گے۔ اس نے بڑی ہمت کی کہ میگھا کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ کل تک صدا کار ملکو کی طرح اسے بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔ اب اس کے پیچھے فلمسازوں اور ڈرامے بازوں کی لائنیں لگی ہوں گی۔ اسے پولیس نے رات گئے رہا کر دیا۔ رہائی بنتی تھی ایسا کسی مسلمان کی طرف سے کیا گیا ہوتا تو آتنک وادی قرار دے کر دہشت گردی کا پرچہ کٹتا۔ بیگ کی تلاش بہرحال لے لی گئی۔بیگ سے جرابوں کا ایک جوڑا برآمد ہوا جس سے سڑاندھ آ رہی تھی۔ بم کی دھمکی دینے کی بجائے میگھا شرما جرابیں تھانیدارنی کو سونگھا دیتی تو اس کے ہوش ٹھکانے آجاتے۔