’ٹیچی ٹیچی‘ٍٍ

جس رفتار سے بجلی کا کوندا لپکتا ہے، اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پی ٹی آئی کو انصاف ملتا ہے۔ ادھر درخواست آئی، ادھر پلیٹ پر پہلے سے دھرا  انصاف کا رس گلا پی ٹی آئی کو ملا پھر بھی سب سے زیادہ گلہ لیول پلے انگ فیلڈ نہ ملنے کا اسی جماعت کو رہتا ہے۔ 
لگ بھگ یا کم و بیش ساڑھے چار سو نشستوں پر پی ٹی آئی نے اڑھائی ہزار کاغذات نامزدگی داخل کیے۔ مسلم لیگ بقدر تین سو کاغذات پی ٹی آئی سے پیچھے رہی۔ پی ٹی آئی کا جشن چل رہا ہے کہ وہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ کاغذات نامزدگی داخل کرنے والی جماعت بن گئی ہے، پھر وہ ہنگامہ اے خدا کیا تھا جو ڈیڑھ ہفتے سے مچا ہوا تھا کہ پی ٹی آئی کو کاغذات جمع نہیں کرانے دیے جا رہے۔ نامعلوم افراد کاغذات چھین کر پھاڑ دیتے ہیں، جو جمع کرانے آتا ہے، اسے نامعلوم لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اب تک کاغذات کی چھین پھاڑ اور امیدواروں کی پکڑ دھکڑ کے جتنے واقعات سامنے آچکے ہیں وہ سب سچے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ یہ سب نہ ہوا ہوتا تو پی ٹی آئی اب تک ڈیڑھ پونے دو لاکھ یا شاید تین چار لاکھ کاغذات جمع کرا چکی ہوتی۔ سوچو، کاغذات جمع کرانے والوں کی تعداد اتنی ہے تو وہ کتنی ہو گی جو ’فیض نیٹ ورک‘ کے صحافیوں کے مطابق پولنگ کے دن گھروں سے اچانک نکلے گی اور چند گھنٹوں میں فرانس اور روس جیسا انقلاب برپا کر دے گی۔ 
______________
الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات سے گریز اور پھر مصنوعی قسم کے انتخابات کرانے پر پی ٹی آئی کی رجسٹریشن منسوخ کر دی اور بلے کا نشان بھی واپس لے لیا۔ اس پر پی ٹی آئی سخت برہم ہوئی کہ وہ پشاور سے انصاف لے گی۔ پشاور ہائیکورٹ میں رٹ لگی۔ فاضل جج نے فوراً ہی سماعت کی، ذرا سا توقف کیا اور کہا کہ فیصلہ دو رکنی ڈویژن بنچ کرے گا۔ مزید ذرا سے توقف کے بعد الیکشن کمیشن کا حکم معطل کر دیا اور حکم جاری کیا کہ رجسٹریشن بحال کی جائے، انتخابی نشان بلا بھی واپس کیا جائے۔ الیکشن کمیشن یا متعلقہ دوسرے فریق کے وکیل کو پھر سن لیں گے۔ بلے کی بلے بلے اور انصاف کی جے جے ہو گئی۔ لیکن نقصان اس کا یہ ہوا کہ پی ٹی آئی اب کس ’معقول وجہ‘ کو بنیاد بنائے گی کہ الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا جائے__ جی ، یہ خبر چل رہی تھی کہ پی ٹی آئی ٹھیک موقع پر چوٹ لگائے گی اور بائیکاٹ کر کے الیکشن نتائج کو متنازعہ بنا دے گی۔ خود تو ہم آئیں گے نہیں لیکن کسی دوسرے کو بھی نہیں آنے دیں گے۔ 
______________
بہرحال، واقفان حال کی اطلاع ہے کہ یہ ایک آپشن ہے، واحد نہیں، دوسرا آپشن پولنگ کے روز، بارہ بجے کے بعد دھاندلی ہو گئی ، دھاندلی ہو گئی کا شورِ قیامت برپا کرنے کا ہے۔ اور واقفان حال کا کہنا ہے کہ حتمی حکمت عملی وہ صاحب بنا رہے ہیں جن کے نام کا چشمہ فیض ہر طرح کی خشک سالی کے باوجود جاری ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ وہ صاحب چکوال میں اپنے ’کنٹرول روم‘ میں مصروف ہیں، کچھ دیگر کی اطلاع ہے کہ نہیں اب وہ چک لالہ میں آ چکے ہیں، اپنے کنٹرول روم سمیت__ چکوال یا چک لالہ؟ الجھن آپڑی، سلجھن اس کی یہ ہے کہ ’درمیانی راستہ‘ تلاش کیا جائے۔ چکوال نہ چک لالہ بلکہ چک والا۔ تو ’چک والا‘ میں دھاندلی کے غل غپاڑے کی سکیم تیار ہو رہی ہے، پولنگ ڈے پر بارہ بجے کے بعد کسی بھی وقت صور اسرائیل، معاف کیجیے گا صور اسرافیل بجے گا اور پھر رات گئے تک اور پھر اگلی صبح تک اور پھر اگلی صبح سے اگلی شام تک اور اسی طرح ایک کے بعد اگلے دن تک بجتا ہی چلا جائے گا جب تک کہ ’عالمی برادری‘ کی طرف سے مداخلت کی خوشخبری نہ آ جائے۔ 
بڑی ڈرا دینے والی سکیم ہے لیکن اندیشہ یہ بھی ہے کہ کہیں کسی فنی خرابی کی بنیاد پر صور نے ٹھیک طریقے سے بجنے سے ہی انکار کر دیا تو؟ بیرونی مداخلت کی کتنی خوشخبریاں اسی طرح سے ماضی میں بھی آتے آتے رہ گئی ہیں حالانکہ جتن تو ان گنت کیے گئے تھے۔ 
______________
یہ غب غپارہ بریگیڈ جو چوبیسوں گھنٹے آید بکار رہتا ہے، اس چشمہ فیض کا داختہ دیر داختہ ہے۔ ریاست کے کروڑوں نہیں، اربوں روپے اس بریگیڈ کی تیاری پر لگے۔ افغانستان سے امریکہ نکلا تو اربوں کھربوں کے ہتھیار چھوڑ گیا جو طالبان کے قبضے میں آ گئے۔ بریگیڈ تیار کرنے والی ریاست سال گزشتہ مرحلہ وار رخصت ہوئی لیکن یہ بریگیڈ آنے والی ریاست کے ہاتھ نہیں لگے، بدستور پی ٹی آئی کے قبضے ہی میں رہے۔
______________
اس بریگیڈ میں کئی شعبے ہیں۔ ایک شعبے کی خصوصی یاد ابھی ابھی ٹی وی پر چلے ایک ٹکر کو دیکھ کر آئی جس میں گندم اور آٹے کی قیمتوں کے حوالے سے کچھ بتایا گیا تھا۔ اس بریگیڈ کا نام ’شعبۂ نذارت و بشارت‘ سمجھ لیجیے۔ دو تین افراد اس شعبے کے مدارالمہام ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بشارتیں دیا کرتے تھے کہ فلاں منصب دار کی تقرری خود رسول اکرم نے کی، فلاں کی فائل حضرت عمر نے تیار کی اور فلاں مہینے پاکستان پر من کی برسات ہو گی اور فلاں مہینے سلویٰ کی۔ پھر صاحب امر بالمعروف کا سنگھاسن ڈولا تو شعبے نے پیداوار بدل دی، بشارت سے نذارت پر آ گئے۔ 
گزرے جنوری یہ ’نذارت‘ نازل ہوئی کہ اپریل میں پاکسان پر عذاب نازل ہو گا، آسمانوں پر فیصلہ لکھا جا چکا ہے اور فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ تبدیل نہیں ہو گا۔ نذارت کے الفاظ سن کر یہی لگا کہ اطلاع دہندہ ضرور آسمانوں کا پھیرا لگا کے آئے ہیں جہاں انھیں ’کلاسیفائڈ‘ دستاویزات ملاحظہ کرائی گئی ہوں گی۔ بہرحال اپریل میں عذاب کا انتظار ہی رہا، لیکن وہ سوکھا ہی گزر گیا جس کے بعد مئی میں عذاب کی اطلاع دی گئی، التوا کی وجہ البتہ نہیں بتائی گئی، نہ ہی یہ بتایا گیا کہ یہ جو لکھا آپ نے پڑھا کہ فیصلہ تبدیل نہیں ہو گا، اس کا کیا ہوا۔ 
مئی بھی گزر گیا تو ان الفاظ کے ساتھ عذاب نامے کی تاریخ میں توسیع کی گئی کہ گندم کی فصل آدھی کٹی ہو گی، آدھی کٹنا باقی ہو گی کہ عذاب آ جائے گا۔ کئی اور ان کٹی، دونوں فصلیں تباہ ہو جائیں گی، پاکستان کے عوام گندم ایک ایک دانے کو ترسیں گے اور وہ نہیں ملے گا۔اس پیش گوئی کا اطلاق جون میں ہونا تھا جسے گزرے اب چھ ماہ ہو گئے۔ 
پی ٹی آئی کے اندرون میکانزم سے واقف ایک واقف کار سے ان بشارتوں اور نذرانوں کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ شعبہ کے انچارج کی کوئی دانستہ غلطی نہیں ہے، جو ’فرشتہ‘ ان پر ’وحی‘ لے کر نازل ہوتا ہے، اس کے پیغام کو ڈی کوڈ کرتے ہوئے ان س ے نادانستہ غلطی ہو گئی۔ پوچھا فرشتہ موصوف کا نام کیا ہے تو فرمایا کہ اس کا نام ’ٹیچی ٹیچی‘ ہے اور وہ بہت ہی خاص کارندوں پر نازل ہوا کرتا ہے۔ پچھلی صدی کے اوائل پر غائب ہوا تھا، پوری صدی گزرنے کے بعد اب آیاہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...