مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال پر مائیکروسوفٹ اور اوپن اے آئی پر مقدمہ

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے مائیکرو سوفٹ اور اوپن اے آئی (OpenAI) پر کاپی رائٹ قوانین کی خلاف ورزی کا مقدمہ دائر کردیا ہے۔نیو یارک ٹائمز کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کی تیاری کے دوران معیاری اور کارگر چیٹ بوٹ بنانے کی خاطر اخبار کے لاکھوں مضامین، فیچرز، انٹرویوز، خصوصی رپورٹس، سیاسی و معاشرتی تجزیوں اور نیوز آئٹمز کو غیر قانونی طور پر استعمال کیا گیا۔مین ہیٹن فیڈرل کورٹ میں دائر کیے گئے مقدمے میں اخبار کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مائیکرو سوفٹ اور اوپن اے آئی نے غیر قانونی طور پر جو مواد استعمال کیا ہے اس سے ادارے کا اربوں روپے کا ہرج واقع ہوا ہے جس کا معاوضہ دیا جانا چاہیے۔

مقدمے کے متن کے مطابق نیو یارک ٹائمز نے اپنی ساکھ مضبوط بنانے کے لیے عشروں کے دوران جو غیر معمولی سرمایہ کاری کی ہے اور جو محنت کی گئی ہے اس سے مفت فوائد بٹورے جارہے ہیں۔مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کام کرنے والے پلیٹ فارمز کے خلاف مختلف ماڈلز کی تیاری کے لیے مواد کے غیر قانونی استعمال کا یہ سب سے بڑا مقدمہ ہےمائیکروسوفٹ پر حال ہی میں 6 بڑے مصنفین نے بھی اپنی تخلیقات سے غیر قانونی طور پر فائدہ اٹھانے کا مقدہ دائر کیا ہے۔مصنوعی ذہانت کے مختلف ماڈلز کو زیادہ مفید اور استعمال میں آسان بنانے کے لیے دنیا بھر سے مواد لیا جاتا ہے۔ مواد کے تجزیے کی بنیاد ہی پر چیٹ بوٹ زیادہ موثر انداز سے کام کر پاتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کام کرنے والی مصنوعات استعمال کرنے والوں کو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ آسانی درکار ہوتی ہے۔اے آئی ماڈل کو زیادہ موثر بنانے کے لیے دنیا بھر کی معلومات، مضامین، فیچرز، خبروں، تحقیق اور اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس بھرپور تجزیے کے لیے بہت زیادہ مواد درکار ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے کاپی رائٹ کے مسائل ابھرتے رہے ہیں۔زبان سیکھنے کے لیے تیار کیے جانے والے مختلف اے آئی ماڈلز کی تیاری میں معروف مصنفین کی تخلیقات کے علاوہ اخبارات و جرائد کا مواد غیر قانونی طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔چیٹ جی پی ٹی تیار کرنے والا ادارہ اوپن اے آئی ہے جو مائیکروسوفٹ کی ملکیت ہے۔ کام کرنے کے طریقے اور سلامتی کو اولیت نہ دینے کے معاملے پر ادارے کو اندرونی کشمکش کا بھی سامنا رہا ہے۔ اس قضیے کے نتیجے میں اس کے منہ پھٹ سی ای او سام آلٹمین کو برطرفی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

ای پیپر دی نیشن