حکومت کیلئے اندرونی الجھنیں اور بیرونی مسائل…(۱)

صرف انگلینڈ کے اخبار گارڈین ہی میں نہیں اب تو امریکہ کے اپنے اخبار نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ وغیرہ نے بھی ریمنڈ ڈیوس کے چہرے سے پردہ اٹھا دیا ہے اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ27 جنوری کو لاہور کے قرطبہ چوک میں دوپاکستانیوں فیضان اور فہیم کا قاتل کوئی سفارت کار نہیں امریکہ کے خفیہ ادارے سی۔ آئی۔اے کا ملازم یا اس کے کسی ذیلی ادارے کا ٹھیکہ پر کام کرنے والا کوئی سابقہ فوجی، سپیشل سروس گروپ کا تربیت یافتہ جاسوس ہے۔جب یہ شخص (ریمنڈ ڈیوس) بپھرے ہوئے عوام میں گھِر گیا تو مدد کے واسطے امریکی قونصلیٹ سے رابطہ کیا ۔ جہاں سے ایک لینڈ کروزر جس میں چند افراد سوار تھے جاسوس کی مدد کو برق رفتاری سے روانہ ہوئی۔ منزل مقصود تک پہنچنے کے واسطے ( رش میں راستہ بنانے میں ناکامی دیکھتے ہوئے ، ٹریفک کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے)اس گاڑی نے ڈیوائڈر (Divider)پھاندا اور سڑک کے دوسری جانب سامنے سے آنے والی موٹر سائکل پر سوار عباد الرحمن کو بیدردی سے کچل ڈالا۔یوں امریکی تین پاکستانیوں کی ہلاکت کے براہ راست ذمہ دار ہوئے۔ ریمنڈ ڈیوس کے فرار کی کوشش پولیس نے ناکام بنا دی، لیکن لینڈ کروزر موقعہ واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ جس کی حوالگی کیلئے پنجاب پولیس کی متعدد کوششیںابھی تک ناکام رہیں اور امریکی قونصلیٹ نے لینڈ کروزر یا اس میں سوار افراد کو پولیس کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ۔ ایسا نہ کرنے کی کوئی وجہ بتانا بھی امریکی قونصلیٹ یا امریکی سفارت خانے نے ضروری نہیں سمجھا۔بعد کی اطلاعات سے پتہ چلا کہ جو لوگ لینڈ کروزر میں سوارتھے وہ بھی سی۔آئی ۔اے کے ملازم تھے جنھیں سفارتی استثناء حاصل تھا انہیں راتوں رات پاکستان سے روانہ کر کے امریکہ پہنچا دیا گیا ہے۔ غور کیجئے اور دیدہ دلیری کی انتہا دیکھئے قتل کے بعد قاتل سے باز پرس کی اجازت تک دینا گوارا نہیں۔ پھر امریکی سادگی سے پوچھتے ہیں کہ لوگ امریکہ کے خلاف کیوں ہیں؟ ادھر ریمنڈ ڈیوس کے نخرے جیل حکام کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ جیل میں اس امریکی جاسوس کو اپنی پسند کے کھانے چاہئیں۔ امریکہ میں اپنے لواحقین سے رابطہ کیلئے ٹیلی فون پر رابطہ کی اجازت درکار ہے۔ گویا امریکہ میں کوئی پاکستانی اگر کسی امریکی قانون کی پاداش میں پکڑا جائے تو وہ تقاضہ کرے کہ جیل میں اسے قورمہ بریانی فراہم کی جائے گی؟ پھر بھی لاہور میں امریکی قونصلیٹ ریمنڈ ڈیوس کو حتی المقدور برگرز، چاکلیٹ اور کافی فراہم کرتا رہتا ہے۔ قونصلیٹ کو اپنے اس قیدی سے رابطہ کی مکمل سہولتیں میسر ہیں۔ البتّہ اس پر پاکستانی عدالت میں قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔ میڈیا اور عوام کی خواہش ہے کہ مقدمہ پاکستان کی عدالت میں پاکستان کے قانون کے مطابق چلے۔
امریکی حکومت کی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے سلسلہ میں بے قراری سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید حقائق سے پردہ اٹھے گا۔ امریکی میڈیا جس نے اپنی حکومت کی درخواست پر ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ میںشروع شروع میں چپ سادھی اب راز ہائے دروں سے پردہ اٹھا نے پر آمادہ نظر آتا ہے ۔خدشہ ہے کہ پاکستان کے تفتیشی ادارے بھی ریمنڈ ڈیوس کی اصل حقیقت لوگوں پر آشکار نہ کر دیں اور یوں امریکی ڈھول کا پول نہ کھل جائے۔ تازہ اطلاعات ہیں کہ امریکہ چاہتا ہے معاملہ کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جایا جائے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق غا لباً ایسا کرنے کے واسطے دونوں ملکوں کی رضا مندی ضروری ہے۔ ہماری حکومت نے بھی دبے دبے اشارہ کیا تھا کہ معاملہ شاید بین الاقوامی عدالت انصاف میں پہنچایا جائے۔ ایسا کرنا شاید آسان نہ ہو۔ عوام اور میڈیا یہی سمجھیں گے ریمنڈ کو آسانی اور سہولت پہنچانے کیلئے یہ کیا جا رہا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریمنڈ لاہور شہر کے اس گنجان آباد علاقہ میں اپنے تمام تر آلات جاسوسی کے ساتھ کس مشن یا اسائنمنٹ پر تھا؟ نیز یہ کہ کتنے اور امریکی ایسے ہی کاموں پر اپنی حکومت کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں اور وہ آزادی سے پرائیویٹ گاڑیوں میں یا ان پر جعلی نمبر پلیٹ لگا کر ملک کے کونے کونے میں گھوم رہے ہیں۔یہ لوگ کب اور کس کی اجازت سے پاکستان میں آئے؟ ان کے آنے کی غرض و غایت کیا ہے وغیرہ؟ قارئین کو یاد ہو گا کہ امریکی حکومت نے احتجاج کیا تھا کہ حکومت پاکستان کے طرف سے امریکیوں کو ویزا کے اجراء میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت کی اطلاع کے مطابق ویزا کے اجرا کی کوئی 500 درخواستیں فیصلے کی منتظر تھیں۔اس وقت بغیر سیکورٹی کلیئرنس ویزے نہیں دیئے جاتے تھے۔ سیکورٹی کلیرنس غالباً ان لوگوں کی ہو نہیں سکتی ہو گی۔حکومت سینکڑوں کی تعداد میں C.I.A ایجنٹس یا جاسوسوں کو ویزے دے کر ملک میں داخل نہیں کر سکتی تھی کہ وہ ہمارے ملک میں آ کر خود ہمارے خلاف جاسوسی شروع کر سکیں۔اس میں ہمارے Strategic assets سمیت سب چیزیں شامل ہیں۔ پاکستان میں کون نہیں جانتا کہ امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک کو ہماری جوہری صلاحیت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ امریکہ نے بہت کوشش کی تھی کہ پاکستان کو جوہری طاقت بننے سے روکا جا سکے۔ اب وہ کسی نہ کسی طرح ہمارے جوہری اثاثوںتک رسائی چاہتے ہیں تاکہ پھر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر من مانی کر سکیں۔خدا جانے ریمنڈ ڈیوس قماش کے کتنے اور لوگ ہمارے ملک کے طول و عرض میں اپنے اپنے مشنوں پر مصروف عمل ہیں۔انہیں اسامہ بن لادن کی تلاش ہے ؟ وہ ملا عمر کی کھوج میں سرگرداں ہیں؟ لشکر طیبہ کی دلچسپیاں اور حرکات انہیں یہاں گھسیٹ لائی ہیں؟ وہ شدت پسندوں اور القاعدہ سے ان کا پتہ لگانے میں سرگرداں ہیں یا پھر صرف ہمارے جوہری اثاثے ان کی دلچسپی کا مرکز ہیں؟سنا ہے 500 کے قریب گھر تو اسلام آباد میں ان لوگوں کے لئے حاصل کئے جا چکے تھے ، مزید 900گھر حاصل کئے جانے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس قسم کے ایک ہزار کے لگ بھگ امریکی ملک کے طول و عرض میں سرگرم عمل ہیں۔(جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن