امریکی حکومت کی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے سلسلہ میں بے قراری سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید حقائق سے پردہ اٹھے گا۔ امریکی میڈیا جس نے اپنی حکومت کی درخواست پر ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ میںشروع شروع میں چپ سادھی اب راز ہائے دروں سے پردہ اٹھا نے پر آمادہ نظر آتا ہے ۔خدشہ ہے کہ پاکستان کے تفتیشی ادارے بھی ریمنڈ ڈیوس کی اصل حقیقت لوگوں پر آشکار نہ کر دیں اور یوں امریکی ڈھول کا پول نہ کھل جائے۔ تازہ اطلاعات ہیں کہ امریکہ چاہتا ہے معاملہ کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جایا جائے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق غا لباً ایسا کرنے کے واسطے دونوں ملکوں کی رضا مندی ضروری ہے۔ ہماری حکومت نے بھی دبے دبے اشارہ کیا تھا کہ معاملہ شاید بین الاقوامی عدالت انصاف میں پہنچایا جائے۔ ایسا کرنا شاید آسان نہ ہو۔ عوام اور میڈیا یہی سمجھیں گے ریمنڈ کو آسانی اور سہولت پہنچانے کیلئے یہ کیا جا رہا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریمنڈ لاہور شہر کے اس گنجان آباد علاقہ میں اپنے تمام تر آلات جاسوسی کے ساتھ کس مشن یا اسائنمنٹ پر تھا؟ نیز یہ کہ کتنے اور امریکی ایسے ہی کاموں پر اپنی حکومت کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں اور وہ آزادی سے پرائیویٹ گاڑیوں میں یا ان پر جعلی نمبر پلیٹ لگا کر ملک کے کونے کونے میں گھوم رہے ہیں۔یہ لوگ کب اور کس کی اجازت سے پاکستان میں آئے؟ ان کے آنے کی غرض و غایت کیا ہے وغیرہ؟ قارئین کو یاد ہو گا کہ امریکی حکومت نے احتجاج کیا تھا کہ حکومت پاکستان کے طرف سے امریکیوں کو ویزا کے اجراء میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت کی اطلاع کے مطابق ویزا کے اجرا کی کوئی 500 درخواستیں فیصلے کی منتظر تھیں۔اس وقت بغیر سیکورٹی کلیئرنس ویزے نہیں دیئے جاتے تھے۔ سیکورٹی کلیرنس غالباً ان لوگوں کی ہو نہیں سکتی ہو گی۔حکومت سینکڑوں کی تعداد میں C.I.A ایجنٹس یا جاسوسوں کو ویزے دے کر ملک میں داخل نہیں کر سکتی تھی کہ وہ ہمارے ملک میں آ کر خود ہمارے خلاف جاسوسی شروع کر سکیں۔اس میں ہمارے Strategic assets سمیت سب چیزیں شامل ہیں۔ پاکستان میں کون نہیں جانتا کہ امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک کو ہماری جوہری صلاحیت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ امریکہ نے بہت کوشش کی تھی کہ پاکستان کو جوہری طاقت بننے سے روکا جا سکے۔ اب وہ کسی نہ کسی طرح ہمارے جوہری اثاثوںتک رسائی چاہتے ہیں تاکہ پھر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر من مانی کر سکیں۔خدا جانے ریمنڈ ڈیوس قماش کے کتنے اور لوگ ہمارے ملک کے طول و عرض میں اپنے اپنے مشنوں پر مصروف عمل ہیں۔انہیں اسامہ بن لادن کی تلاش ہے ؟ وہ ملا عمر کی کھوج میں سرگرداں ہیں؟ لشکر طیبہ کی دلچسپیاں اور حرکات انہیں یہاں گھسیٹ لائی ہیں؟ وہ شدت پسندوں اور القاعدہ سے ان کا پتہ لگانے میں سرگرداں ہیں یا پھر صرف ہمارے جوہری اثاثے ان کی دلچسپی کا مرکز ہیں؟سنا ہے 500 کے قریب گھر تو اسلام آباد میں ان لوگوں کے لئے حاصل کئے جا چکے تھے ، مزید 900گھر حاصل کئے جانے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس قسم کے ایک ہزار کے لگ بھگ امریکی ملک کے طول و عرض میں سرگرم عمل ہیں۔(جاری ہے)