میں ہوں مشکوک وفاداریوں والا پاکستانی

طاہر القادری صاحب کی الیکشن کمیشن کے حوالے سے درخواست کو قابلِ سماعت مان کر انہیں عدالت میں بلایا گیا اور پھر آئین کی رو سے جو بھی حکم جناب چیف جسٹس صاحب نے سنایا اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ citizenship act of 1951 کے مطابق تو کوئی پاکستانی dual nationality نہیں رکھ سکتا تھا بعد میں ترامیم ہوتی گئیں اور پندرہ ممالک کے ساتھ بیرون ِ ملک پاکستانیوں کو دوہری شہریت رکھنے کا حق حاصل ہوگیا،ان ممالک میں کینڈا بھی شامل ہے ۔ میں ہوں ایک دوہری شہریت کا حامل بیرون ِ ملک پاکستانی ۔ جس نے پاکستان کے سے تعلیم پائی ،میں غریب تھا ۔ کمر ہ امتحان میں میرے ساتھ بیٹھا امیر لڑکا جب نقل مار کر اچھے نمبروں میں پاس ہوجاتا تھا تو میں دل میں سوچتا تھا کہ نقل کا یہ کلچر مجھے مار ڈالے گا ۔ میں نے پاکستان کی اعلی ڈگری لے لی ۔ میں لڑتا رہا جاب تک بھی پہنچ گیا ۔ پھر میں نے دیکھا وہ لوگ جوکم تعلیم یافتہ تھے مجھ ماسٹر ڈگری ہولڈر کوحکم دے رہے ہیں اور میرے پاس ان کا حکم ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ میں یہ بھی کرتا رہا مگر ایک دن جب سب پرموشن لے کر آگے نکل گئے اور میں وہیں کھڑا رہا تو میرے ہاتھ پاﺅں سے طاقت ختم ہونے لگی اور ایک دن جب میرے بھائی کو راہ چلتے ایسے ہی کسی نے موبائل فون کے لئے جان سے ہی مار دیا تو میں نے اپنے آپ کو سڑک پر مفلوج بھک منگے کی طرح گھسٹتے پایا ۔ میں نے پڑھائی کے دنوں میں کبھی تصور بھی نہ کیا تھا کہ اس مٹی سے جدا ہونگا ۔ یہاں کے لوگوں کی خدمت کا جذبہ تھا مگر انہی لوگوں نے مجھے لوٹ لیاجو میرا پاکستان تھے ۔ میں سر پر پاﺅں رکھ کر بھاگا ۔کینڈا میں آکر دیکھا تو جدو جہد کا ایک نیا باب سامنے تھا ۔ ایک دریا پار کیا تھا، ایک اور دریا سامنے تھا مگر یہاں کا پانی بہت سکون سے بہہ رہا تھا ۔ میں تیرنے لگا اورچند سالوں کی محنت کے بعد دیکھا تو بالوں میں سفیدی اور چہرے پر جھریاں پڑگئی تھیں ۔ مجھے جوانی کی جد و جہد دو بارہ کر نی پڑی ، میری کمر جھک گئی تھی اور پاکستان کی یادوں کا لمحہ میرے اوپر آکر ٹھہر گیا تھا ۔ لاکھ کوشش کی مگر وہ مجھ پر سے ٹلا نہیں ۔ کینڈین شہریت بھی مل گئی ، ملکہ کے ساتھ وفاداری کی قسم بھی کھا لی ۔مگر دل نے پاکستان کے ساتھ دھڑکنا نہ چھوڑا ۔حالانکہ اُس مٹی پر میرے خوابوں اور میرے بھائی کے خون کا رنگ تھا ۔ کینڈا میں سیٹ ہوتے ہی پاکستان کو بھاگا ۔ ائیر پورٹ پر اترتے ہی محبتوں کا سمندر نظر آیا ۔ پورٹر نے بھاگ کر مجھ سے میرا سامان پکڑ لیا ، اس کے چہرے پر پیار تھا ۔ میں نے دل میں سوچا یہ میرا بھائی ہے ، بڑھ کر اسے گلے لگا لیا ۔ اسے پیسے دینے کا وقت آیا تو ایک رشتے دار نے بڑھ کر کچھ روپے اس کو تھماکر رخصت کرنا چاہا تو اس نے میری طرف اسی محبت سے دیکھا اور کہا ڈالرز ؟ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ پاکستانی رشتے دار نے اسے ڈانٹ دیا ۔قلی نے بڑی نفرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ، آجاتے ہیں منہ اٹھا کر پاکستان ، ڈالر نہیں لاتے تو آتے کیوں ہو ؟ میں نے سمجھانے والے انداز میں کہا جتنی محنت کرتے ہو اتنی اجرت کی امید رکھو اور ہمیشہ پہلے بتا دیا کرو کہ کتنے پیسے لینے ہیں ۔ اس نے کہا ڈالرز نہیں دینے تو نصیحتیں اپنے پاس رکھو ۔اس کی آنکھوں کی محبت نفرت میں بدل چکی تھی ۔ رشتے دار نے کہا پروا نہ کرو ۔ جب پاکستان سے رخصت ہونے کا وقت آیا اورمیں نے اسی رشتے دار کو بے کار رہنے پر کچھ کام کاج کے مشورے دینے کی کوشش کی ، کرپشن کے نظام کا حصہ نہ بننے کی تلقین کی ، کینڈا کی کچھ خوبصورت باتیں بتانے کی کوشش کی تواس نے اسی پورٹر کی طرح نفرت سے میری طرف دیکھ کر کہا؛ سال کے۳۳۳ دن کینڈا میں عیش کرنے کے بعد ۳۳ دنوں کے لئے پاکستان آکرایسی باتیں کرنا ایک اچھی تفریح ہے ۔ اس کا اچانک بدلا انداز سمجھ میں نہ آیا مگر یہ ضرور یاد آگیاکہ میرا آخری ڈالر بھی خرچ ہوچکا ہے ۔مجھے بھی اسی وقت پاکستان کی مٹی سے خوشبو آنا بند ہوگئی اورمیں کینڈا کی بے رنگ دنیا میں لوٹ آیا اور کام شروع کر دیا۔ ڈالرز اکاﺅنٹ میں آنے شروع ہوئے تو پھرسے پاکستان کی مٹی کی یاد میں گم ہوگیا ۔ یہ ہے ہر دوسرے بیرون ِ ملک پاکستانی کی کہانی جس پر طاہر القادری صاحب کے کیس کی سماعت میں چیف جسٹس صاحب نے ۔ مشکوک وفاداری۔۔ کا فتوی لگا یا ہے ۔ کیس کے فیصلے کی قانونی موشگافیوں میں جائے بغیر اور جج صاحب کے اس ماورائے عقل بیان پر بات کرنے سے پہلے جج صاحب سے کچھ باتیں پوچھنے کی جسارت کریں گے۔ نومبر2008میں جب وہ مسندِ انصاف سے اتارے جا چکے تھے ، وہ ۲۱ دن کے دورے پرامریکہ گئے ۔سرِ راہے پوچھنا چاہتی ہوں ،کیا اس وقت امریکہ کا دورہ آپ کی وفاداری کو مشکوک کر تا تھا ؟ امریکی عہدے داروں سے ملنا مقصود تھا یا دوہری شہریت کے حامل مشکوک پاکستانیوں سے؟ دونوں صورتوں میں آپ کی راہ و رسم مشکوک لوگوں سے تھی۔ ہم آپ کی پاک دامنی پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے تاہم اسی دورے کے دوران آپ کو نیویارک بار ایسوسی ایشین کی تا حیات ممبر شپ سے نوازا گیا ۔منیر نیازی نے ایسے موقعوں کے لئے ہی کہا تھا : شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا

 پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس نے کیا

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...